Back To Main Page

چیونٹے کا سوگ- کھوار لوک کہانی کا ترجمہ

تحریر: مولا نگاہ
ترجمہ: ممتاز حسین

ایک تھا، چیونٹا ، ایک تھی مکھی۔چیونٹا شوہر تھا اور مکھی بیوی۔ چیونٹے نے ساری گرمیاں محنت کی اور دانے جمع کرتا رہا۔ سردیوں تک ان کے پاس بہت سے دانے جمع ہوگئے۔ ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج بیباغ پکایا جائے۔ یعنی مختلف دالوں کے دانے ملا کر پکا لیے جائیں۔

انہوں نے ایک بڑی دیگ میں مختلف قسم کے دالوں کے دانے ڈال کر ابلنے کے لیے رکھ دیے۔ جب دانے ابلنے لگے تو لکڑیاں ختم ہو گئیں۔ مکھی لکڑیاں لانے باہر نکل گئی۔ جب مکھی چلی گئی تو چیونٹے نے سوچا کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے کہ دانے ابلے ہوں یا کچے۔ کیوں نہ چند دانے چکھ لوں۔ یہ سوچ کر وہ دیگ پر چڑھا اور نیچے جھانکنے لگا۔ اس کوشش میں وہ دیگ کے اندر گر پڑا اور جل کرمر گیا۔

مکھی نے چیخ واپس آئی تو جب مکھی واپس آئی تو دیکھا کہ چیونٹا مرا پڑا ہے۔ اس نے چیخ ماری، سر پر خاک ڈالی اور دیگ کی کالک منہ پر مل کر سوگ شروع کردیا۔ مکھی کا منہ اس سے پہلے سفید تھا، اس کے بعد اس کا منہ کالا پڑ گیا۔ مکھی سوگوار ہوکر باہر نکلی اور دیوار پر بیٹھ گئی۔ اتنے میں کوا آکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ کوے نے مکھی کو اس حالت میں دیکھا تو پوچھا "اے مگسک رو سیاہ، ترا چہ شد" مکھی نے جواب دیا "من مگسک رو سیاہ، میر پلیلی(چیونٹیوں کا سردار) جنگ افتاد و مرد" یہ سن کر کوے نے پیچھےمڑ کر اپنی دُم کے پر نوچ لیے اور اُڑ گیا"۔

کوے نے کہا"من غلبائک دُمبکند، مگسک روسیاہ، میر پلیلی جنگ افتاد مرد" درخت نے یہ سنا تو اس کے ہرے بھرے پتے ایک دم زرد ہوکر گر گئے اور وہ ٹنڈ منڈ کھڑا رہ گیا۔ درخت کے پتوں کو جھڑتے دیکھ کر ایک بکری دوڑی آئی۔ پتے چباتے ہوئے اس نے اُوپر دیکھ کر درخت سے کہا "اے درختک برگ ریز، ترا چہ شد"۔ درخت نے کہا " من درختک برگ ریز، غلبائک دمبکند، مگسک رو سیاہ، میر پلیلی جنگ افتاد مرد"۔ یہ سن کر بکری نے زور سے درخت کے تنے کو ٹکر ماری اور اپنی ایک سینگ تڑوا بیٹھی۔ سینگ ٹوٹی تو بکری کو سخت تکلیف ہوئی۔ درد سے میں میں کرتے جب اس کا حلق سوکھ گیا تو بکری جاکر نہر سے پانی پینے کے لیے جھکی۔ پانی نے جب بکری کو یوں خون آلود دیکھا تو کہا "اے بزک شاخ شکن، ترا چہ شد"۔

بکری بولی "من بزک شاخ شکن، درختک برگ ریز، غلبائک دمبکند، مگسک روسیاہ، میر پلیلی جنگ افتاد مرد"۔ یہ سنا تو نہر کا صاف ستھرا پانی گدلا ہوکر بہنے لگا۔ آگے ایک دہقان اسی پانی سے باجرےکےکھیت کو پانی دے رہا تھا۔ پانی جب گدلا ہوگیا تو باجرہ بولا "اے ابک تیرہ، ترا چہ شد"۔ پانی نے جواب دیا "من ابک تیرہ، بزک شاخ شکن، درختک برگ ریز، غلبائک دمبکند، مگسک روسیاہ، میر پلیلی جنگ افتاد مرد"۔

باجرے کی فصل نے یہ سنا تو ہری بھری فصل مرجھا کر زمین پر گر گئی۔ دہقان نے یہ دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اور پوچھا "اے ارزانک سر خمیک، ترا چہ شد"۔ باجرہ کی فصل بولی "من ارزانک سرخمیک، ابک تیرہ، بزک شاخ شکن، درختک برگریز، غلبائک دمبکند، مگسک روسیاہ، میر پلیلی جنگ افتاد مرد"۔ یہ سن کر دہقان نے بیلچہ مار کر اپنا سر پھاڑ لیا اور گھر کی طرف رونہ ہوا۔ گھر کے قریب اسے گوالن ملی جو گھر میں دودھ دینے جارہی تھی۔ گوالن نے دہقان کو یوں زخمی دیکھا تو پوچھا 'اے دہقانک خونم خون، ترا چہ شد"۔ دہقان بولا "من دہقانک خونم خون، ارزانک سرخمیک، ابک تیرہ، بزک شاخ شکن، درختک برگ ریز، غلبائک دمبکند، مگسک روسیاہ، میر پلیلی جنگ افتاد مرد"۔ گوالن نے یہ سن کر دودھ کا برتن اپنے سر پر الٹ دیا اور اسی حالت میں گھر داخل ہوئی۔ گھر میں ایک عورت کھانا پکا رہی تھی۔ اس نے گوالن کو دیکھا تو پوچھا "اے زنک شالجویک، ترا چہ شد"۔ گوالن بولی "من زنک شالجویک، دہقانک خونم خون، ارزانک سرخمیک، ابک تیرہ، بزک شاخ شکن، درختک برگ ریز، غلبائک دمبکند، مگسک روسیاہ، میر پلیلی جنگ افتاد مرد"۔ یہ سن کر کھانا پکانے والی عورت کھولتی ہوئے دیگ میں کود گئی اور جان دے دی۔

اس طرح میر پلیلی کا سوگ بالکل اسی طرح مکمل ہوا ، جس طرح وہ خود مرا تھا۔

اصل کہانی یہاں سے پڑھیے


MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com