Changiz Khan Back To Main Page

چنگیز خان استاذ

سکول کے زمانے میں ایک عرصے تک چنگیز خان استاذ کا نام ہمارے لیے سوہان روح بنا رہا۔ جو استاذ ہماری نالاِئقی اور بد خصلتی کا اپنی طبعی شرافت سے موازنہ کرتا، وہ آخر میں یہ مژدہ ضرور سناتا کہ انکی جگہ بہت جلد ایک خونخوار قسم کے استاذ تبدیل ہو کر آ رہے ہیں، جو ہماری کھال نہ صرف ادھیڑ کر رکھ دے گا بلکہ اس پر نماز بھی پڑھے گا۔ ان موعود دہشت پسند اساتذہ میں سے ایک کا نام نامی چنگیز خان بتایا جاتا تھا۔ ایک عرصے تک ہمارا مشترکہ و متفقہ خیال تھا کہ موصوف کا اصلی نام کچھ اور ہو گا، چنگیز خان کا نام ان کی خونریزی کے سبب پڑ گیا ہو گا۔

آخر ایک روز وہ بری خبر آ ہی گئی جس کے تصور ہی سے ہم خوف کھاتے تھے۔ چنگیز خان استاذ تبدیل ہو کر ہمارے سکول پہنچ گتے۔ نہ صرف سکول بلکہ ہماری آٹھویں جماعت کی کلاس میں، انگریزی پڑھانے۔ انہیں پہلی مرتبہ دیکھ کر یقین نہیں آیا، کیونکہ ان کی شکل اور وضع اس چنگیز خان سے بالکل لگا نہیں کھاتی تھی جو میرے ذہن میں تھا۔ میرا چنگیز خان کچھ یوں تھا۔ گول مٹول جسم جس پر بھیڑ کی کھال کا پوستین، گول زرد چہرہ، چھوٹی آنکھیں جن کے باہری سرے اوپر کو مڑے ہوئے، مونچھیں لمبی پتلی نیچے کو لٹکی ہوئیں اور سب سے نمایاں ہاتھ میں خون الود تلوار۔۔۔۔ چنگیز خان کی تصویر کہانیوں کی کتابوں میں بالکل ایسی ہی تھی۔

لیکن یہ کیا؟ یہ کیسے چنگیز خان ہیں؟ لمبا پتلا جسم، ستواں ناک، بڑی بڑی روشن آنکھیں جو ہر وقت سوچ میں ڈوبی لگتی تھیں، رنگ اور لباس دونوں اجلے اجلے سے، ہاتھ میں تلوار تو کیا، استاذوں کا روایتی مولا بخش بھی نہیں، ہاں کوئی کتاب یا رسالہ ضرور ہوتا۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ۔۔۔۔ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

سچ پوچھیے تو مجھے کافی مایوسی ہوئی۔ برسوں کا بنا بنایا تصور ٹوٹ جائے تو مایوسی ہی ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی تھا کہ چنگیز خان کی ممکنہ دہشت گردیوں کو ہم نے غیر شعوری طور پر ایک چیلنج کے طور پر اپنایا تھا۔ کئی دن تک انتظار رہا کب چنگیز خان استاذ اپنے مولا بخش کا تعارف کراتے ہیں، لیکن اس کا موقع کبھی نہیں آیا۔ شاید مولا بخش صاحب کو کتاب نے مستقلاً فارع کر دیا تھا۔

ویسے تو اُن دنوں ہمارے اساتذہ اج کل کے استاذوں کی طرح "صاحب نصاب" نہیں ہوتے تھے، لیکن "اہل کتاب" عموماً ہوا کرتے تھے، یعنی اپنے ساتھ کتاب رکھتے اور پڑھتے تھے۔ (ہمارے ایک استاذ مطالعے کے اتنے شوقین تھے کہ کلاس میں بھی اکثر اپنی کتاب مین عرق رہتے نتیجتاً ہمیں ان سے پڑھنے کا بہت کم موقع ملا)۔ لیکن چنگیز خان استاذ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ "صاحب کتاب" بھی ہیں، یعنی پڑھنے کے علاوہ لکھتے بھی ہیں۔ جمہور اسلام رسالے میں ان کی چیزیں چھپتی تھیں اور ہم اس پر فخر کرتے۔

چنگیز خان استاذ کلاس میں البتہ صرف کورس کی کتاب سے کام رکھتے۔ پڑہانے میں وہ تدریسی اصولوں اور ضروریات کا بہت خیال رکھتے۔ سردیوں میں ہم باہر دھوپ میں بیٹھ کر پڑھتے۔ چنگیز خان استاذ نے دھوپ میں بیٹھ کر پڑہانے سے انکار کر دیا۔ ہم نے اصرار کیا تو کہا "دیکھو کلاس کی پڑھائی اور گپ شپ میں فرق ہوتا ہے۔ کلاس صرف کلاس روم میں لیا جا سکتا ہے، جہاں اس کا ماحول اور اس کی ضروریات ہوتی ہیں۔ مثلاً بلیک بوڑ کو لیجیے جو استاذ کی روح رواں ہوتی ہے، اور اس کے بغیر کلاس کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔"

انگریزی کی کتاب پڑھاتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ گرامر اور انشاء کے اصول بھی سمجھاتے جاتے۔ جہاں موقع ہوتا سبق کے موضوع کی مناسبت سے عام معلومات اور ادب کے بارے میں بھی بات کرتے۔ اشعار اردو فارسی اور عربی کے ان کو بہت یاد تھے جہیں برمحل سناتے۔

چنگیز خان استاذ ہمارے سکول میں دو سال سے کم عرصہ رہے۔ اس دوران ان کی شہرت کے برعکس انہیں کسی پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ شاید ان کی کم گوئی اور سنجیدگی کا اثر تھا کہ ایسا موقع ہی نہ آ سکا۔

چنگیز خان ان چند استاذوں میں سے ایک تھے جن کے بارے میں افسوس رہا کہ ان سے زیادہ استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممتاز حسین

اسی سلسلے میں پڑھیے۔۔۔ محمد چنگیز خان طریقی ... تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com