Back

یسین کی تاریخ میں مقامی قبائل کا سیاسی کردار

خلیفہ ثاقب، ہندور یسین
20.04.2025

یسین، جو آج کل پاکستان کے صوبے گلگت بلتسان کا حصہ ہے، ماضی میں ایک ریاست کا دارالحکومت رہا ہے۔ اس ریاست پر مختلف وقتوں میں مختلف حکمران سلسلوں نے حکومت کی ہے۔ اس علاقے میں تصنیف و تالیف کا کام نہ ہونے کے برابر رہا ہے، اس وجہ سے یسین کی کوئی باقاعدہ اور مستند تحریری تاریخ موجود نہیں۔ حالیہ برسوں میں جو تھوڑا بہت لکھا گیاہے وہ صرف حکمرانوں اور وہ بھی صرف خوشوقت خاندان کے حکمرانوں کے بارے میں ہے۔ اس علاقے کی طویل تاریخ میں مختلف قبائل اور با اثر شخصیات نے جو کردار ادا کیا ہے اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ زیرنظر مضمون میں یسین کے خوشوقتی دور میں اہم قبائل کے سیاسی کردار کا جائزہ جائے گا۔ ان میں ان حکمرانوں کے حمایتی اور مخالف دونوں طرح کے قبائل شامل ہیں۔

روایات کے مطابق یسین قدیم عہد میں ریاست بروشال کا مرکز تھا، جو گلگت سے چترال اور بدخشان تک پھیلی ہوئی تھی۔ بروشال سےمراد بروشو لوگوں کی سر زمین ہے اور اس ریاست کے حکمران بھی بروشو نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ بروشو نسل کے لوگ پوری گلگت وادی اور وادی چترال کے شمالی حصوں پر آباد تھے۔ بعد میں گلگت کی طرف شن قبائل اور چترال میں کھو اور کلاش لوگوں کے پھیلاؤ نے بروشو لوگوں کو یسین، ہنزہ اور نگر تک محدود کر دیا۔ سنہ 1500 عیسوی کے بعد چترال پر بدخشانی حکمران قابض ہو گئے جن کا اقتدار بعد میں یسین تک پھیل گیا۔ 1550 کے بعد کے زمانے میں بلتستان سے جو حملے ہوئے ان کی وجہ سے گلگت پر سے بھی بروشو اقتدار ختم ہو گیا۔ یسین کی روایات میں علی شاہ، شاہ رئیس، شاہ طاہر اور شاہ بابر کا ذکر ملتا ہے جو بدخشان سے تعلق رکھتے تھے۔

لیکن یسین کی تاریخ کے جس دور کے بارے میں ہمارے پاس کسی قدر زیادہ تحریری اور زبانی رویات موجود ہیں وہ خوشوقت خاندان کا دور حکومت ہے۔ خو شوقت، محمد بیگ بن سنگین علی کے بیٹوں میں سے تھا۔ چترال اور یسین میں رئیس خاندان کے خاتمے کے بعد اولاد محمد بیگ کا اقتدار قائم ہوا تو یسین خوشوقت کے حصے میں آیا۔ تاہم خوشوقت خاندان کے اقتدار کو مستحکم کرنے والا پہلا حکمران شاہ فرامرد تھا جو خوشوقت کا بیٹا تھا۔ شاہ فرامرد نے نہ صرف یسین بلکہ پورے چترال پر بھی قبضہ کر لیا اور کافرستان باشگل کو بھی فتح کر کے وادی کنڑ پر چغانسرائے تک اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ ان کے بعد اس خاندان کے دوسرے بڑے حکمران شاہ خیر اللہ تھے جس کا اقتدار یسین کے ساتھ ساتھ پورے چترال پر قائم ہوا۔ خیر اللہ کے بعد خاص چترال پر کٹور خاندان نے دوبارہ اپنا اقتدار بحال کر لیا اور خوشوقت خاندان کی حکومت بالائی چترال، وادی غزر اور یسین پر برقرار رہی۔ اس دور میں خوشوقت خاندان کے اہم حکمرنوں میں شاہ پادشاہ، ملک امان، سلیمان شاہ اور گوہر امان شامل ہیں۔

ان تمام ادوار میں یسین کے طاقتور قبیلوں نے اہم سیاسی کردار ادا کیا، جیسے قوم برگہے (یعنی خلفائے ہندور اور حاکمان ٹنگے )، شامونے ، بردوقے ، ابدے ناصرے ، غلبشرے، ہلبتنگے ، بلیسے ، قرابگے، چناکوز تھوئی، اور سوکھے یاسین۔ ذیل ان قبیلوں کے سیاسی کردار کا مختصر تعارف کیا جاتا ہے۔

خلفائے ہندور کی تاریخ انکے کے جد امجد اتالیق برگاہو تھوئی سے شروع ہوتی ہے اور اب تک یاسین میں اس سلسلے کی بارہویں پشت چل رہی ہے۔ اتالیق برگاہو کے آباؤ اجداد بدخشان شغنان کے باشندے تھے، جو سولہویں صدی میں چترال اور یاسین کی طرف ہجرت کر گئے۔ چترال میں اس قبیلے کے افراد کو شیغنے کہا جاتا ہے، جنکا شمار چترال کے آدم زادہ (معزز) قبائل میں ہوتا ہے۔

یہ لوگ جس زمانے میں شعنان سے چترال اور یاسین کی طرف آگئے تب کی روایات میں چترال اور یاسین میں کسی کٹور اور خوشوخت حکمران کا ذکر نہیں ملتا۔ تاریخی روایات کی رو سے خوشوقت خاندان سے پہلے یہاں میر علی شاہ اور شاہ طاہر بدخشانی حکمران نظر آتے ہیں۔ گمان کیا جاتا ہے کہ اتالیق برگاہوں یا تو انکے ساتھ یاسین کی طرف آگئے یا پھر بدخشان کے میر شاہ بابر کے ساتھ ان علاقوں کی طرف حملہ آوار ہوئے اور یاسین کو مستقل اپنا مسکن بنایا ۔ تاریخ پہ نظر ڈالیں تو اس قبیلے کے آباؤ اجداد خوشوخت دور سے پہلے بدخشانی حکمرانوں کے وقت میں بھی یہاں سیاسی عہدوں پہ فائز تھے، جن میں اتالیق برگاہو اور اتالیق حمدین شامل ہیں۔ جب کہ اتالیق برگاہو کا پوتا اتالیق دیخون جو شاہ فرامرد کے نائب یاسین تھے، عہد خوشوقتیہ میں منظر عام پہ آتے ہیں۔

شاہ فرامرد سے پہلے زبانی روایات کے مطابق دو بدخشانی حکمران گزرے ہیں جنکا پایہ تخت برکولتی یاسین میں تھا۔ ان کے نام میر شاہ طاہر اور میر علی شاہ ہیں۔ شاہ طاہر تھمارائے کے قلعے میں رہتا تھا۔ اس زمانے میں یہاں ابدی قوم ناصرے منظر عام پہ آتے ہیں۔ سردار ابدی میر شاہ طاہر کا نامور سردار تھا جس نے انکے بیٹے کی رضاعت کی۔ میر علی شاہ نے بدخشان سے میر شاہ طاہر کے خلاف لشکر کشی کی جس میں شاہ طاہر مارا گیا۔ تب شاہ طاہر کے بیٹے کو سردار ابدی نے پناہ دی تھی، جو ابدی کا رضاعی بیٹا بھی تھا۔ تاہم بعد میں میر علی شاہ نے ابدی کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنے رضاعی بیٹے کو خود ہی قتل کر دے۔ اس طرح ابدی شاہ طاہر کے بیٹے کو قتل کر کے میر علی شاہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ روایات کے مطابق اس زمانے میں سردار ابدی کا قیام موجودہ ہلبتنگے دیح تھا جب کہ میر علی شاہ سندی کے بٹہ کھن میں رہائش پذیر تھا۔ اسی وجہ سے شامن سندی کی آبی شکار گاہ انکے نام سے منسوب ہے۔ نیز درکوت کا ( علی شامن) علی شاہ کا چبوترہ بھی انہی کے نام سے منسوب ہے۔

میر علی شاہ کا خاتمہ شاہ فرامراد خوشوقتے کے ہاتھوں ہوا۔ اس مہم میں یاسین کے تین قبائل نے شاہ فرامراد کا ساتھ دیا، جن میں خلفائے ہندور کے اتالیق دیخون ، ٹنگے قبیلے کے جد اول سردار ٹنگ ، اور شمونے قبیلے کے سردار شامل تھے۔ شاہ فرامراد نے برکولتی ہرایو دیح کے مقام پہ شدید لڑائی کے بعد بدخشانی میر علی شاہ کو قتل کردیا۔ میر علی شاہ کا مقبرہ اب بھی وہاں موجود ہے۔ شاہ فرامرد نے ان تینوں قبیلوں کو جائیدادیں اور نالہ جات دلوائے جن میں نالہ ہندور خلفگان (برگہے) کو ، ہندرپ شنجو گول ٹنگے (برگہے) کو اور سندی اسمبر شمونے قوم کی ملکیت میں دیا گیا۔ ہندور خلفتنگ دیح کے مقام پہ شاہ فرامرد نے اپنا ایک قلعہ تعمیر کروایا جسے ماتوم کھن کہا جاتا ہے۔ وہ جب بھی یسین آتا تھا یہاں قیام کرتا تھا۔ اس قلعے کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔

اس مرحلے پر ایک اور قبیلہ بردوقےمنظر عام پہ آتا ہے۔ برکولتی کے بردوقے قوم کا سردار بردوق جو غالبا شاہ فرامرد کا اتحادی تھا اور اپنے عہد کا ایک نامور سردار تھا۔ یہ اپنا تعلق ہنزہ کے وزیر قبیلے سے جوڑتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کس زمانے میں اور کس وجہ سے ہنزہ سے یاسین برکولتی آکر آباد ہوئے۔ سردار بردوق ایک نامور سردار تھا جو شاہ فرامرد کے عہد میں چترال تا یاسین مختلف جاگیروں اور نالہ جات کی دستاویزات میں گواہ بنائے گئے۔ جیسے شنجو گول ہندارپ اور اسمبر سندی۔

شاہ فرامرد کے عہد میں یسین میں درکوت کے قرابیگے قبیلے کا قتل عام ہوا۔ یہ لوگ چلاس سے آ کر یہاں آباد ہوئے تھے اور درکوت کا نام بھی اسی قبیلے نے رکھا تھا۔ راجہ شاہ فرامرد نے اس قبیلے کے افراد کو املست کے مقام پرنا معلوم وجوہات کی بناء پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔

مختلف قبیلوں کو زمینیں اور نالہ جات کی عطایگی شاہ فرامرد کے عہد میں شروع ہوئی۔ شاہ فرامرد کی دی ہوئی زمینیں اور نالہ جات مستقلاً ان قوموں کی ملکیت میں رہے اور بعد کے کسی حکمران نے یہ زمینیں ان سے چھیننے کی کوشش نہیں کی۔ اتالیق دیخون ہندور شاہ فرامرد کے نائب یاسین اور انکی طرف سے اتالیق مقرر تھے اور اسی قبیلے شیغنے چترال کے کلابہ نامی سردار راجہ شاہ فرامرد کے اتحادی تھے جنہوں نے شاہ فرامرد کے اشارے سے قزل بیگ بن محمد رضا کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور بعد میں خود بھی قصاص میں قتل ہوا۔

شاہ فرامرد کا قیام چترال میں شغور کے مقام پر تھا۔ یہ پہلے خوشوقت حکمران تھے جنہوں نے چترال اور گلگت دونوں علاقوں پر حکومت کی۔ انکی بیٹی کی رضاعت خلفائے ہندور نے کی، جن کا مقبرہ بھی ہندور میں ہے۔ ان کا زمانہ اٹھارویں صدی کا آخری چوتھائی کا تھا۔ یہ عظیم حکمران شاہ فاضل اور شاہ افضل کے ہاتھوں چترال شغور کے قلعے میں قتل ہوئے اور ان کی اولاد اب چترال چباڑی میں موجود ہے۔ شاہ فرامرد اسماعیلی مکتب فکر کے پیروکار تھے۔

شاہ فرامراد کے قتل کے بعد نامور خوشوقتے حکمران خیر اللہ یسین کے تخت پہ قابض ہوئے۔ مہتر خیر اللہ دوسرے خوشوقتے حکمران تھے جس نے اپنی حکومت کو یسین، چترال اور نورستان کی سرحدوں تک وسعت دی۔ انکا قیام چترال میں بریپ کے مقام پر ہوتا تھا۔ اب یہاں مہتر خیر اللہ کے دور میں ایک اور قبیلہ منظر عام پہ آتا ہے یعنی تھوئی کا چوناکوز قبیلہ۔ چونا حاکم مہتر خیر اللہ کے اتحادی تھے ۔ ان کے علاوہ ان کو جن قبیلوں کی حمایت حاصل رہی ان میں خلفائے ہندور (برگہے)، بردوقے برکولتی ، ٹنگےہندرپ (برگہے) شامل تھے۔ تاہم دو قبیلوں غلبشرے اور شمونے کی شاہ خیر اللہ سے نہیں بنتی تھے اور وہ ان کے مخالف کیمپ میں رہے۔

مہتر خیر اللہ کے عہد میں یسین کے ان کے اتحادی تین قبیلوں کی تین اہم شخصیات نظر آتی ہیں۔ ان میں خلفائے ہندور کےوزیر شیر بیگ ابن اتالیق دیخون ، چونا حاکم ابن بیگل ، اور عادل شاہ حاکم ابن وزیر ٹنگ ۔ مہتر خیر اللہ کے عہد حکومت میں یاسین میں غلبشرے قوم کا قتل عام ہوا جس کے پیچھے وزیر بردوقے کا ہاتھ تھا۔ مہتر شاہ خیر اللہ نے شاہ جہاں عرف ڈوڈل تھم (شاہ خوشامد اول کے بیٹے) کے ذریعے غلبشرے قوم کے تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تاہم ایک عورت اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ پہاڑوں سے ہوتی ہوئی نگر کی طرف فرار ہوئی۔ اس بچے کی نسل سے آج کے غلبشرے اور ہلبتنگے آباد ہیں۔ مہتر خیر اللہ نے تھوئی چوناکوز کو مشبر نالے کی ملکیت دے دی۔ چوناکوز اور مہتر خیر اللہ کے درمیان رشتے داری بھی تھی۔ اس بنا پر چناکوز، خلفائے ہندور حاکمان ٹنگے اور بردوقے مہتر خیر اللہ کے حمایتی تھے۔ بعد میں چونا حاکم اور مہتر خیر اللہ کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تھا نیز شمونے قوم اور ان کا نالہ اسمبر پر خیر اللہ کے ساتھ اختلاف تھا۔ چونا حاکم جلاوطن ہوئے اور ان کی قبر یارخون کی طرف کہیں ہے۔ چترال کے زوندرے قبائل بھی مہتر خیر اللہ کے اتحادی تھے۔

مہتر خیر اللہ نورستان کے مہم پر تھے تو محترم شاہ کٹور ثانی نے افغانوں کی مدد سے جنوبی چترال میں ارسون کے مقام پر انکو قتل کر دیا، اور وہ وہیں دفن ہوئے۔ خلفائے ہندور کے اتالیق شیر بیگ بھی خیر اللہ کے ساتھ ہی چترال میں قتل ہوئے اور ان کی قبر چترال استچ میں ہے۔ مہتر خیر اللہ کے قتل میں یاسین سے انکے مخالف قبائل سے کوئی فرد شامل نہیں تھا۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انکے قبیلے کے لوگ مہتر خیر اللہ کے قتل میں شامل تھے تو اس میں کوئی صداقت نہی ہے۔

شاہ خیر اللہ کے دور میں شاہ پادشاہ خوش وقتے بشقار میں جلا وطن تھے۔ پادشاہ کی بیٹی محترم شاہ ثانی کی بیوی تھی،اس لیے خیر اللہ کے قتل کے بعد وہ محترم شاہ کی مدد سے یسین پر قابض ہوئے۔ شاہ پادشاہ کا اقتدار میں آنا خیر اللہ کے حمایتی قبیلوں خلفائے ہندور ، برگہے تھوئی ، بردوقے برکولتی ، بلیسے برکولتی ، ناصرے برکولتی اور ٹنگے پندرپ وغیرہ کے لیے مشکلات کا باعث بنا، جب کہ خیر اللہ کے مخالف قبیلوں کو فایدہ ہوا۔ شاہ بادشاہ نے برگہے بردوقے ناصرے اور ٹنگے قبیلے سے جائیدادیں اور عہدے چھین لیے۔ ٹنگے قبیلے سے پھنڈر ہرکش کی جاگیر شاہ بادشاہ نے اپنے قبضے میں لے لی۔ ہلبتنگے قبیلے نے شاہ پادشاہ کے بیٹے سلیمان شاہ کی رضاعت کی تھی، اس بنا پر شاہ پادشاہ نے ہلبتنگے کو برکولتی ادوہر میں ابدی سردار کا گھر اور گرمش کا نالہ بخش دیا۔ غلبشرے کے قتل عام میں ملوث بردوقے قبیلے سے سیاسی عہدے چھینے گئے، اس کے بعد بردوقے اور ابدی قبیلہ کبھی اوپر نہیں آ سکے۔ خلفائے ہندور اتالیق شیر بیگ کے قتل کے بعد حکومت سے دور ہوئے، اور پیران ارکاری سے مضبوط تعلقات قائم کر لیے تاکہ عوام پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ سکیں۔ شمونے قبیلے نے شاہ پادشاہ سے تعلق بنا کر اپنا ملکیتی نالہ اسمبر دوبارہ حاصل کیا اور تب سے اس پر قابض ہیں۔

شاہ پادشاہ کے دور حکمرانی میں غلبشرے قبیلے کو اتنا اثر و رسوخ حاصل ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ شاہ پادشاہ کے وفات کے بعد بھی انکی طاقت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آگے چل کے انہوں نے بڈوڑ اور بدنگ جیسے نامور سردار پیدا کیے جنہوں نے گوہر امان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی قبیلے کے اتالیق غفران نے یاسین پہ ایک سال کے لیے حکومت کی۔

شاہ پادشاہ کی وفات کے بعد ٹنگے قبیلے کی طاقت پھر سے بحال ہو گئی اور انہوں نے اپنے سے چھینی گئی جائیدادیں واپس حاصل کیں۔ قبیلے ٹنگے نے عہد گوہر امان میں بڑے نامور اور جنگجو سردار پیدا کیے جو گوہر امان کے مشہور گلہ بہادران میں شامل تھے۔ جی ڈیبلو لیٹنر نے اس قبیلے کے حیات اللہ حاکم کو جنرل حیات اللہ آف یاسین لکھا ہے۔ برگہے تھوئی شاہ پادشاہ کے وفات کے بعد سیاست میں نظر نہیں آتے۔ تاہم 1880 سے 1890 کے درمیان سخی جموئن منظر عام پہ آئے اور اپنے آباؤ اجداد کے وراثتی عہدے کا حق دار ٹھہرے۔ ان کو پہلوان مہتر کے عہد میں دو عہدے جموئن اور سرنگی ایک ساتھ دیئے گئے۔

گوہر امان کے عہد میں خلیفہ ملا شکرت ایک نامور سیاسی اور مذہبی شخصیت گزرے ہیں۔ انکی رسائی راجہ گوہر کے دربار تک تھی۔ وہ ان کے قاضی تھے اور ان کی طرف سے شرعی فیصلے کرتے تھے۔ خلیفہ ملا شکرت کو برکولتی کی جاگیر بطور انعام دیا گئی ہے جسے بروشسکی زبان میں (غطینج سرکم ہا ) کہا جاتاہے ۔ انعام ان کو گلگت کے راجہ کے اسمبر نالے کے راستے حملے کے موقع پر بہادری سے ان کا مقابلہ کرنے پر دیا گیا تھا۔ گوہر امان ملا شکرت کے مذہبی علوم کے قدردان تھے اور انکو ایک طشتری (فل) عنایت کیا تھا تاکہ رسم چراغ روشن کے تبرکات اس طشتری میں گوہر امان کو بھیج دیں۔ بروشسکی کی مشہور کہاوت ہے "ہندور خلفتنگ اوپئی گوہر امان اے فل بی"۔ مطلب خلفائے ہندور کے پاس گوہر امان کا فل ہے ۔ گوہر امان کے آخری رسومات بھی خلفائے ہندور نے ادا کیے۔

یاسین کے چند مشہور سرداروں کو گوہر امان کے گلہ بہادران کہا جاتا ہے۔ ان میں سربلنگ خان تھوئی چوناکوز ، مہری بیگل تھوئی مورکالیکوز، بڈوڑ اور بدنگ برکولتی غلبشرے ، حیات اللہ حاکم اور انکا بیٹا رحمت اللہ حاکم قوم ٹنگے ، رحمت وزیر اور انکا بھائی بلی بیگ حاکم قوم سوکھے شامل ہیں۔ یہ لوگ گوہر امان کی جنگی مہمات کے روح روان اور اس کے دست و بازو تصور کیئے جاتے تھے۔ مہری بیگل مڈوری جنگ میں شہید ہوئے، حیات اللہ حاکم ٹنگے بیارچی کی لڑائی میں، بدنگ نگر پہ حملہ میں اور بڈول بدنگ کے ہاتھوں مارے گئے۔

قبیلہ ٹنگے 1892 کے بعد انگریزوں کے خلاف اتحاد کا حصہ رہے۔ قبیلہ ٹنگے کے رحمت اللہ حاکم نے چترال کے شہزادہ سردار نظام الملک کو یاسین سے نکال کر محمد ولی بن میر ولی خوشوقتے کو یاسین کے اقتدار پر بٹھایا۔ ٹنگے قوم نے 1895 میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور پاداش میں جلاوطن ہوئے اور ان کی جائیدادیں رحمت وزیر قوم سوکھے کو دی گئی۔

یسین پر مزید پڑھیےیسین کے مقامی کھانے

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com