کھوار شاعری میں عروض کے استعمال کے موضوع پر جناب نقیب اللہ رازی صاحب کے مقالے کی اشاعت کے بعد اسی موضوع پر
جناب صالح ولی ازاد نے بھی اظہار خیال کیا ہے۔ دیگر حضرات بھی اس سلسلے میں اہنی رائے دے سکتے ہیں۔

علم عروض اور کھوار شاعری

صالح ولی آزاد

ترازو کے ایک پلڑے میں تین کلو اور دو پاؤ کے باٹ رکھے جائیں اور دوسرے میں چینی، تو خریدار کو کبھی چار سیر چینی نہیں ملے گی۔ چینی اسے اتنی ہی ملے گی جتنے کے باٹ رکھے جائیں۔ اگر رتی برابر بھی چینی یا باٹ کا وزن زیادہ ہوگا تو پلڑا یک طرف جھک جائے گا، اور اسے کسی بھی صورت لین دین کا اصول قرار نہیں دیا جائے گا۔

محفل موسیقی اپنے جوبن پر ہے۔ طبلہ،ہامونیم اور دیگر ساز اپنی مخصوص ترتیب پر بج رہے ہیں۔ گلوکار بھی اواز کا جادو جگانے کو موجود ہے۔ پہلا مصرعہ گایا گیا اور پھر دوسرا مصرعہ۔ لے ذرا تیز ہوئی ۔ ایک نوجوان اٹھا اور سازوں کے زیر و بم اور تالیوں کے اہنگ پر تھرکنا شروع کیا۔ اچانک ایک بدذوق شریک محفل کی تالی غلط بجنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دوسروں کی تالی اور طبلہ سب کی ترتیب بگڑ گئی۔ رقاص کے پاؤں بھی غلط پڑنے لگے اور وہ کھسیانا ہوکر بیٹھ گیا۔ کونکہ بے ترتیب اوازیں رقاص کے اعضا کو مخصوص اور منظم حرکات پر اکسانے میں ناکام رہیں۔

کچھ یہی صورت حال شاعری کے ساتھ بھی ہے۔ بحر کے ارکان باٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں کمی بیشی شعر کی کی بنیادوں کو متزلزل کردیتی ہے، اور شعر میں برابری و ہم آہنگی کی جگہ ایک نامعقول قسم کا جھکاؤ آجاتا ہے۔ اگرچہ اسے ہم پھر بھی شعر کہہ سکتے ہیں ،لیکن اسے ایک قسم کا عیب لگ جاتا ہے۔

مقدمۂ شعر و شاعری میں مولانا حالی نے وزن کو شاعری کے لیے ایک ثانوی چیز قرار دیا ہے، تاہم اس کی یہ رائے قبولیت عام حاصل نہیں کر سکی۔ شعراء اور ناقدین عموما اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ وزن، بحر ، قافیہ ردیف وغیرہ شعر کے لوازمات میں سے ہیں۔ ان کے بغیر شاعری ممکن نہیں ۔

دنیا کی کسی بھی زبان میں ادب بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، یعنی نظم اور نثر۔ چونکہ بات شاعری کی ہورہی ہے ہے تو ہم "نظم " کے معنی پر غور کریں گے۔ "نظم" کے مفہوم میں جو چیزیں شامل ہیں وہ ہیں تنطیم، ترتیب، برابری، ایک خاص سانچے میں ڈھلا ہوا، اور بے ظابطگی سے پاک۔ کسی کلام میں ترتیب پیدا کرنے والی بنیادی چیز "وزن" ہی ہے۔ ۔

اکثر و بیشتر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا کھوار شاعری بھی وزن اور بحر کی پابندیوں کے تابع ہے، اور کیا کھوار شعر بھی اردو کے مروجہ بحروں کی متحمل ہو سکتا ہے؟۔ اس سلسلے میں میرا جواب مثبت ہے۔ کیونکہ اگر اردو، پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی، ہندکو اور ان جیسی دیگر زبانیں اگر ان بحروں پر پورا اتر سکتی ہیں تو کھوار کیوں نہیں ۔ کھوار بھی ان سے بہت زیادہ مختلف زبان نہیں۔ بلاشبہ کھوار کے معاملے میں دشواریاں پیش آسکتی ہیں لیکن دشواریوں کا مطلب یہ نہیں کہ ہم وزن اور بحر کی ضرورت و اہمیت سے ہی انکار کردیں۔۔

میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ کھوار کے بیشتر شعراء کے کلام میں اردو اور فارسی الفاظ کی ایک بڑی مقدار شامل ہوتی ہے۔ یہ الفاظ تقطیع کے وقت کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ پہلے ہی وزن کےسانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں۔ مثلاً شبِ ہجراں، "مفاعیلن"، شبنم "فعلن"، فروزاں "فعولن"، اے چارہ گر "مستفعلن" پر پورا اترتا ہے۔ اس طرح کھوار شاعر کو بڑی سہولت رہتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کلام میں ٹھیٹھ کھوار الفاظ زیادہ سے زیادہ شامل ہوں۔ نیز انہیں تقطیع کے عمل سے گذار نے کی کوشش کی جائے۔

اب اس سلسلے میں پیش انے والی کچھ مشکلات کا بھی ذکر ہوجائے۔ ۔

بعض کھوار کی تقطیع کرتے ہوئے کسی حرف کو گرانے کے بجائے اضافہ کیا جاتا ہے، جو اصول کے خلاف ہے۔ مثلاً صلہ، گلہ، وفا، دُعا وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ اصل رکن "مفا" کے ہیں، لیکن بعض اوقات تقطیع کرتے ہوئے انہیں دو سبب خفیف بنایا جاتا ہے۔ جیسے صی-لا، گی-لا، وا-فا وغیرہ۔ یہ غلطی صرف بحرِ رمل میں اُبھر کے سامنے آتی ہے۔ مثلاً۔

حالانکہ اس شعر میں کوئی غلطی نہیں۔ یہ تقطیع پر پورا اترا ،مگر ایک حرف کی زیادتی سے۔ اسی طرح بحر رمل میں ایسے تمام الفاظ ایک حرف کے اضافے سے پورا اترتے ہیں۔ بحر حال کھوار میں بحروں کے نہ سمونے کی شکایت بے جا ہے۔ ایسے الفاظ کو بحروں میں ڈال کر اگے پیچھے کرکے شعر کو با وزن بنایا جاسکتا ہے۔۔

مسائل اور ان کی وجوہات

فلمی گیتوں کے علاوہ کہیں بھی شاعری موسیقی کی بنیاد پر نہیں کی جاتی۔ لیکن کھوار میں شاعری کے ساتھ یہ ناروا سلوک کیا جاتا ہے کہ کوئی سی دھن لے کر (چاہے وہ اردو، پشتو یا کسی اور زبان کی ہو)، اشعار کو اس کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کے باعث شعر بحر کے اوزان سے ہٹ جاتا ہے۔

ایک اور وجہ شعراء کا بحروں اور ان کے استعمال سے نا اشنائی اور توجہ کی کمی ہے۔ حالانکہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو چند سالم بحر یں ہی ان کی مشکل آسان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مثلاً بحر ہزج سالم، جو سب سے آسان بحر ہے۔ یہ بحر کھوار کے دشوار الفاظ کو بڑی خوش اسلوبی سے سمو سکتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل مثال سے واضح ہے۔

ایک اور مثال

بحر رمل سالم کی مثال ۔

ایک اور آسان مثال بحر متقارب کی ہے۔۔

تجاویز

اس وقت جو اُنیس مروجہ بحریں اور ان کے علاوہ رباعی کی پانچ بحریں ہیں، یہ مل کر کل چوبیس بنتی ہیں۔ ایک شاعر اپنے شعری حس اور ذوق کا سہارا لے کر شعر لکھے تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی بحر میں ڈھل ہی جائے گا۔ ہمارے ہاں شعری محفلوں کا انتظام زیادہ سے زیادہ کیا جائے تاکہ شعراء کا کلام زیادہ سے زیادہ سامنے آئے۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ تنقیدی مجالس کا بھی انعقاد بھی کیا جائے تاکہ شعراء کا کلام اس بھٹی سے نکل کر کندن بن جائے۔ کھوار کلام کی اشاعت سے پہلے اساتذہ کو دکھا کر اس کی نوک پلک (خصوصاً وزن اور بحر کے سلسلے میں) درست کرائی جائے۔


اسی سلسلے میں پڑھیے: ثناء اللہ ثانی کا مصمون شاعری اور علم عروض
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahaka.mail@gmail.com