Back

کھو (چترالی) معاشرے میں داستان گوئی کی روایت

فریداحمدرضا
20.02.2023

انسانی ثقافت جاندار اشیاء کی طرح نشو نما پاتی رہتی ہے۔ ثقافییں جانداروں کی طرح ماحول سے متاثر ہو کر اپنے آپ کو اس میں ڈھالتی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے کوئی ثقافت امد نہیں ہوتی۔ کم آبادی والے گروہوں کی ثقافتیں اور وہ ثقافتیں جو ٹکنالوجی میں دوسروں سے پیچھے ہوں، تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جدید دور میں ذرائع ابلاع کی ترقی نے دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا ہے اور اب ثقافتوں پر بیرونی اثرات پہلے کی نسبت تیزی سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ چونکہ تبدیلی ثقافت کی بنیادی خصوصیت ہے، اس لیے تبدیلیوں کو ثقافت سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔

اس وقت جدید ایجادات کے زیر اثر معمولات زندگی بدل جانے سے معاشرے میں رائج پرانی ثقافتی سرگرمیاں اور روایات معدوم ہورہی ہیں ۔اُن معدوم ہوتی ہوئی سرگرمیوں میں سے ایک کھو معاشرے میں داستان گوئی کی روایت ہے۔ داستان گوئی صدیوں سے کھو معاشرت کا حصہ رہا ہے، اور ثقافت کی تشکیل میں اس کا اہم کردار رہا ہے۔ ٹکنالوجی کے زیر اثر تفریح کے متبادل ذرائع کی دستیابی نے انسان کے طرز زندگی میں جو تبدیلیاں لائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ داستان گوئی کی روایت ختم ہو رہی ہے۔

چترال کے کھو معاشرے میں کہانی سنانے کی روایت بہت گہری اور صدیاں پرانی ہے ۔ جب یہ علاقے باقی دنیا سے الگ تھلگ تھے تو لوگوں کی زندگی اتنی مصروف نہیں تھی۔ ان کی سرگرمیاں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی تک محدود تھیں اور فارع وقت کی کمی نہیں تھی۔ فارع وقت میں لوگ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کو زندگی کے بارے میں اپنی تجربات، شکا ر کی کہانیاں، سفر کے واقعات، جنگوں اور مہموں کے کارنامے وغیرہ سناتے۔ ایسی کہانیوں میں چسکے کے لیے مبالغہ اور فرضی اضافے بھی شامل ہوتے۔ یہ واقعات سینہ بسینہ روایت ہوکر داستانیں بن جاتیں۔ اس طرح لوک داستانوں کا ذخیرہ بنتا گیا۔

داستان گوئی کا مشعلہ ہر قسم کی مجالس کی رونق بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا۔ حکمرانوں اور امراء کی محفلوں، علماء کے مسندوں اور عام لوگوں کے گھروں میں اس کا چلن یکساں طور پر عام تھا۔ چترال کے حکمرانوں کے ہاں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی جو کہانیاں سناکر حکمران اور ان کے مصاحبیں کو تفریج مہیا کرتے۔ داستان گوئی عموماً رات کو ہوتی۔ کبھی کبھی داستان اتنی لمبی ہو جاتی کہ رات بیت جاتی۔ داستان گو بہت سارے قسم کے قصے سناتے۔ ان میں کچھ فارسی،عربی اور دوسری زبانوں سے لیے ہوتے، جو کچھ کرداروں کی معمولی تبدیلی کے ساتھ یہاں کی کہانیوں میں شامل ہو گئی تھیں۔ کچھ قصے، کہانیاں یہاں کےمقامی ہوتے۔ کچھ لوگ اپنی طرف سے بھی قصے کہانیاں بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ بادشاہوں کے درباروں میں سنائے جانے والے قصوں میں زیادہ تر مہم جوئی، جنگی بہادری، بادشاہوں کے ساتھ وفاداری، بذلہ سنجی، بادشاہوں کے انصاف، وزیروں کی حاضر دماغی، پہلوانوں کے آپس میں اور دیووں وگیرہ کے ساتھ مقابلوں وغیرہ کے قصے ہوتے۔

اکثر علاقوں میں مقامی داستان گو ہوتے۔ لوگ ان کو گھروں میں بلا کر ان سے داستانیں سنتے۔ خصوصاً سردیوں کی لمبی راتوں کو داستان گوئی وقت گزارنے کا واحد ذریعہ تھا۔ ان کہانیوں میں بادشاہ، ملکائیں، شہزادے شہزادیاں، پریاں، خوبرو جوان، مہیب دیو، جادو گر اور مخلف جانور عام کردار ہوتے۔ یہ کہانیاں اتنی دلچسپ ہوتیں کہ رات گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ کہانی سنانے والوں میں جو دلچسپ اور لمبی داستان سناتا وہ شلوغ دیاک (داستان گو) کے نام سے پورے علاقے میں مشہور ہوجاتا۔

گھروں میں بڑی بوڑھیاں بچوں کو کہانیاں سنایا کرتیں۔ یہ کہانیاں اپنے الفاظ، ترتیب ،علم اور معلومات کے لحاظ سے دیگر داستانوں سے مختلف ہوتیں۔ بچوں کےلیے سنائی جانے والی کہانیوں میں اخلاقیات کا پہلو نمایاں ہوتا، جیسا کہ مجبوروں کی مدد کرنا ،ماں باپ کا کہا ماننا، بڑوں کا ادب کرنا، سچ کی فتح ، رحم دلی، ظالم کا برا انجام، کسی اچھی کردار کے مشکل میں ہوتے پر غیبی مدد، مشکل کے وقت عقلمندی کا مظاہرہ، جھوٹ کا انجام، قدرتی ماحول سے دوستی، جانوروں سے پیار، لالچ کا برا انجام ، جیسے سبق حاصل ہوتے۔ گھروں میں بچوں کو بہلانے کےلیے بھی لوری اور قصہ کہانیاں سناکر بچوں کوبہلائے جاتے۔

کسی بھی علاقے کی لوک کہانیاں صرف کہانیاں نہیں ہیں بلکہ یہ علاقے کی تاریخ، ایک زمانے کا بیانیہ ہوتیں۔ کہانیوں سے اپنی روایات سے جڑے رہنے، اخلاق اور مہارتیں سیکھنے، کچھ کرنے اور ترقی کرنے کی ترغیب ملتی۔ ان کہانیوں میں نہ صرف بچے بچیوں کی اخلاقی تربیت ، بلکہ اپنے علاقے ،خاندانی ادب اور معاشراتی اقدار سے جانکاری ہوتی۔ قومی غیرت اور حب الوطنی بھی ان کہانیوں سے ہی سکھائے جاتے۔ اس طرح معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کا ادراک، اچھے برے کی تمیز بھی ان کہانیوں کے ذریعے ہوتی۔ جس میں اٹھنے،بیٹھنے سے لےکر بولنے تک کے آداب شامل ہوتے۔ اس تربیت کی بنا پر کھو معاشرے میں اچھے اور برے کا معیار قائم تھا۔

کھوار میں کہانی سنانے کا بھی اپنا ہی ایک نرالا اندازہے۔ اکثر کہانی سنانے والے کہانی کچھ اس تمہید کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ” وختہ مائی وخت بیرائے، اوا تہ چنگیم، تومہ چنگیس انوس چھویو چنگیر، چھوئے انوسو چنگیر، کا کہ چنگیتائے چنگاکو گردانہ۔ ای باچھا بیرائے" وغیرہ۔ اس کا ترجمہ اردو میں کچھ یوں بنتاہے کہ "ایک دفعہ کا ذکر ہے، میں آپ سے جھوٹ بولوں، آپ مجھ سے جھوٹ بولیں، دن رات سے جھوٹ بولے، رات دن سے جھوٹ بولے۔ اور جو بھی جھوٹ بولے، اس کا گناہ اصل جھوٹے کو ہو۔"

جب داستان گو کہانی سنارہا ہوتا تھا تو سامعین کےلیے لازمی ہوتا کہ وہ سنتے ہوئے "خائے خائے" یعنی اچھا اچھا کی تکرار کرتا رہے، تاکہ کہانی سنانے والے کو سامعین کی دلچسپی کا پتہ چلتا رہے۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پرانے زمانے میں راتوں کو روشنی کا انتظام اچھا نہیں ہوتا تھا۔ عموماً سردیوں کی لمبی سرد راتوں کو کہانی سننے کی محفلیں منعقد ہوتی۔ اس لیے کہانی سنانے والا رات کو بستر میں گھس کر کہانی سنار ہا ہوتا اورسننے والے بھی بستر میں گھس کر کہانی سن رہےہوتے تھے، اور (خائے خائے ) کہہ کر یہ بتانا مقصود ہوتا، کہ ہم سن رہے ہیں ہم سوئے نہیں ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کہانی سنانے والا ان آوازوں پر توجہ نہ دیتا اور کہانی سناتا رہتا، لیکن کہانی سننے والے کب کے سوئے ہوتے۔ اس طرح سے کھو کمیونٹی میں کہانی کو ختم کرنے کا بھی اپنا ایک دلچسپ انداز ہوتا ہے جوکہ" ہتیت ہتیرہ اسیتانی اوا ہاتام، یا نغزیانو باخی دروݯ، ای نوغا تاؤ دریئے اوہتی نوغا پروزیرو" جیسے الفاظ ہوتے۔ اس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ "وہ وہاں پر موجود تھے میں لوٹ آیا، وہ خوشی میں نہال ہورہے تھے میں چلا آیا، جیسے خوشی کے اظہار کے ساتھ کہانی کا خاتمہ ہوجاتا۔

گزشتہ کچھ عرصے سے بدلتی طرز زندگی اور تفریح کے جدید ذرائع نے داستان گوئی کی روایت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ ماہر داستان گو تو کب کے ختم ہو گئے۔ دادی اماں بھی کہانیاں بھول چکی ہے اور بچوں کی دلچسپی بھی نئی چیزوں میں ہے۔ ایسے میں مقامی دانش کا یہ خزانہ معدوم ہونے کو ہے۔ اب یہ واحد حل ہے کہ ان کہانیوں کو کتابی شکل میں محفوظ کرنے، ان کہانیوں پر مشتمل ویڈیو گیم ترتیب دینے، اور ان کہانیوں کو آواز دے کر کرداروں کی شکل میں پیش کرکے معاشرےسے ہم آہنگ بنایا جائے۔ کیونکہ کھو کمیونٹی کے بچے ان قصے کہانیوں سے مانوس ہوں اور اپنے معاشرے کے بارے میں بہتر طریقے سے جان سکے ۔ اس طرح سے یہ مواد بھی آنے والی نسل تک پہنچ پائے گا۔ اگراب بھی ان روایات کو محفوظ کرنے کا انتظام نہ ہوا تو ہم دادی اماوں کی گود میں بیٹھ کر کہانیاں سن کر تربیت پانے والی آخری نسل ہونگے۔

اس موضوع پر مزید پڑھیے: شلوغ- چترالی بچوں کی کہانیاں farid raza

Farid Ahmad Raza, President Mother-tongue Institute for Education and research (MIER) is a linguist and researcher, working on language promotion, documentation and multilingual education in Chitral
.He is Editor in-chief of a journal "Khowar Nama" for Khowar language
Email: farid.mier@gmail.com

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com