chitrali_qaleen Back To Main Page

کھوار کی ترقی میں صحافت کا کردار

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی (تمعہ امتیاز)

موجودہ دور میں کسی زبان کی ترقی میں صحافت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جیسے اردو زبان کی نشو نما میں اخبارات و رسائل نے کلیدی کردار ادا کیا، جن میں پیسہ اخبار، اودھ پنچ، ادب لظیف، ماہ نو، فنون، اوراق وغیرہ کے علاوہ اخبارات کے ادبی صفات شامل ہیں۔ کھوار ایک چھوٹی علاقائی زبان ہے جس میں صحافت بہت دیر سے شروع ہوئی۔ تاہم اخبارات، رسائل اور ریڈیو نے اس زبان کی ترقی میں اہم رول ادا کیا۔ یہاں پر گزشتہ نصف صدی کے دوراں کھوار زبان میں صحافت اور زبان و ادب کی ترقی میں اس کے کردار کا مختصر جائزہ لیا جاتا ہے:


ریڈیو

ریڈیو پریس سے نئی چیز ہے، لیکن کھوار کے سلسلے میں اسے تقدم حاصل ہے۔ ریڈیو پاکستان پشاور سے کھوار پروگرام کا آغاز نومبر 1965 میں ہوا۔ اس میں تفریحی اور معلوماتی پروگراموں کے علاوہ خبریں بھی شامل ہوتی تھیں۔ پروگرام میں ہر چیز لکھ کی بولی جاتی تھی اس لیے مستقل طور پر کھوار لکھنے کا آغاز ریڈیو سے ہی ہوا۔ اس کے اولیں لکھنے والوں میں پروفیسر اسرار الدین، ولی زار خان ولی، اقبال حیات، اقبال الدین سحر وغیرہ شامل تھے۔ ریڈیو کے لیے ہر صنف میں لکھنے کی ضرورت پڑی یعنی رپورٹ، تبصرے، خبریں، تقریریں، ڈرامے اور شاعری۔ بے شمار لوگوں نے ریڈیو کے لیے لکھا اور اس زبان میں میں لکھنے کا رواج چل پڑا۔ گلگت میں ریڈیو کا آغاز ہوا تو وہاں سے بھی کھوار پروگرام شروع ہوا جس نے وہاں کے کھوار لکھنے والوں کے لیے مواقع فراہم کیے۔ اب ان دو سٹیشنوں کے علاوہ ریڈیو پاکستان چترال، پختونخواہ ریڈیو پشاور اور چترال کا ایک پرائیویٹ چینل ایف - ایم -97 بھی کھوار نشریات پیش کرتے ہیں۔

رسالہ جمہور اسلام

1967 میں حکومت پاکستان کی وزارت اطلاعات کے شعبے بارڈر پبلسٹی آرگنائزیشن نے پشاور سے شائع ہونے والے پشتو رسالے "جمہور اسلام" کے کچھ صفحے کھوار کے لیے مختص کیے۔ 1969 سے "جمہور اسلام کھوار" کے نام سے کھوار کا الگ رسالہ شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ رسالہ 1991 تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا، جب اس محکمے کی دیگر مطبوعات کے ساتھ اس کی اشاعت بھی بند ہوگئی۔ اس کی ادارت کے فرائض مختلف اوقات میں اقبال حیات، عنایت اللہ فیضی اور محمد یوسف شہزاد نے انجام دیے۔ کھوار میں ترجمہ، مضمون نویسی، ڈرامہ، تحقیق، تنقید، نظم اور غزل کو اس مجلے نے پروان چڑھایا۔ اسی میں مولانا پیر محمد چشتی کا کھوار ترجمہ قران اور وزیر علی شاہ کا ترجمہ گلستان و بوستان قسطوں میں شائع ہوئے۔ اس کے نثر نگاروں میں غلام عمر، شہزادہ عزیز الرحمٰن بیغش، وزیر علی شاہ، ولی زار خان ولی، پروفیسر اسرار الدین، محمد ولی خان، گل نواز خان خاکی، شہزادہ فخر الملک، اقبال حیات، عنایت اللہ فیضی، شیر نواز خان نسیم، گل مراد خان حسرت، شیر ولی خان اسیر، اقبال الدین سحر کے نام نمایاں ہیں۔ جن شعراء نے اس مجلے کے لیے لکھا ان میں بابا ایوب، مرزا فردوس فردوسی، باچا خان ہما، رحمت اکبر خان رحمت، محمد چنگیز خان طریقی، ناجی خان ناجی، امین الرحمٰن چعتائی، گل نواز خاکی، فدا الرحمٰن فدا، محمد عرفان، خلیل الرحمٰن نوشاد، شیر نواز نسیم، احمد الدین احمد کے علاوہ اور بہت سے نام شامل ہیں۔ العرض اس مجلے نے کھوار لکھنے والوں کی ایک بڑی جماعت تیار کی۔

ہفت روزہ تریچمیر

1966 میں چترال کے عالم دین مولانا صاحب الزمان نے یہ اخبار شروع کیا۔ 1968 میں میں اس کی ادارت ولی زار خان ولی نے سنبھالی اور اس کا ایک حصہ کھوار کے لیے مختص ہوا۔ اس کی پیشانی پر ولی زار خان ولی کا یہ شعر چھپتا تھا:
تان زبانو سوم کورور محبت ۔۔ کھوار نیویشور، بوئے اسپہ عزت

اس اخبار میں کھوار میں خبر نویسی، اداریہ نویسی اور کالم نگاری جیسے اصناف کو متعارف کرایا۔ پروفیسر اسرار الدین "ققنس" کے نام سے اس میں کالم لکھتے تھے۔ یہ اخبار 1969 میں بند ہوا۔

تریچمیر میگزین

پشاور یونیورسٹی میں زیر تعلیم چترالی طلبہ کی تنظیم "چترال سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن" نے 1975 سے اپنا سالانہ میگزین"'تریچمیر" کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ اس میں انگریزی، اردو اور کھوار حصے ہوتے تھے۔ اس کے چیف ایڈیٹر پروفیسر اسرار الدین تھے اور یہ کئی سال باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ اس کے ذریعے طلبہ میں لکھںے کا شوق پیدا ہوا۔

ماہنامہ کھوار

انجمن ترقی کھوار چترال نے یہ رسالہ عنایت اللہ فیضی کی زیر ادارت شروع کی، جس کا 1990 میں ایک شمارہ شائع ہوا۔

بزم کھوار

انجمن ترقی کھوار حلقہ دروش نے یہ سہ ماہی ادبی رسالہ شروع کیا۔ اس میں کھوار تخلیقات شائع ہوتی رہِں۔ اس کے مدیر نقیب اللہ رازی تھے۔

سہ ماہی کھوار چاپ

انجمن ترقی کھوار حلقہ دروش ہی کا یہ رسالہ 2004 میں شروع کیا گیا۔ اس نے کئی یادگاری نمبر شائع ہوئے، جیسے حسام الملک نمبر، فخر الملک نمبر، غلام عمر نمبر اور رحمت اکبر خان رحمت نمبر۔ اس کی ادارت فدا الرحمٰن فدا نے کی۔

ماہنامہ ہمکلام

1998 میں مولانا نقیب اللہ رازی نے یہ رسالہ شروع کیا۔ اس میں خبروں اور حالات حاضرہ پر تبصروں کے علاوہ کالم بھی چھپتے تھے۔ اس کے لکھںے والوں میں انوار الدین انور، سلیم کامل، شاکر اللہ انجم، اور غلام رسول بیقرار شامل تھے۔

سہ ماہی نوائے چترال

یہ رسالہ مولانا محمد انس نے 2005 میں لاہور سے جاری کیا۔ اس میں کھوار حصہ بھی شامل تھا۔ اس کے لکھنے والوں میں مولانا محمد انس، حافظ نصیر اللہ منصور، مولانا اسد اللہ حیدر اور دیگر شامل تھے۔ اس میں بچوں کا صفحہ بھی چھپتا تھا۔

سہ ماہی کھوار نامہ

مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم MIER نے یہ کھوار رسالہ 2009 میں شروع کیا۔ اس میں کھوار کی صرف نثری تخلیقات شامل ہوتی ہیں۔ اس کے ادارتی گروپ میں فرید احمد رضا، ظہور الحق دانش، جاوید اقبال جاوید اور عطا حسین اطہر شامل ہیں۔ رسالے نے مرحوم ادیبوں گل نواز خاکی اور مولانگاہ پر خصوصی نمبر بھی شائع کیے۔ اس میں کھوار کے تمام نمایاں لکھنے والوں نے لکھا ہے۔ یہ رسالہ کئی برسوں سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے جو یقیناً خوش آئند بات ہے۔

تعلیمی اداروں کے مجلے

چترال کے تعلیمی ادارے اپنے سالانہ مجلے شائع کرتے ہیں، جن میں گورنمنٹ کالج چترال کا "پنار"، گورنمنٹ کالج بونی کا "خنداں"، گورنمنٹ گرلز کالج چترال کا "روشنی" اور گورنمنٹ گرلز کالج بونی کا "دیدہ ور" شامل ہیں۔ ان سب میں کھوار سیکشن شامل ہوتے ہیں، جن میں طلبہ اور اساتذہ کی نگارشات شائع ہوتی ہیں۔

ویب سائیٹ

ویب پر کھوار لکھا جارہا ہے جس سے اس کے پڑھنے والوں کا حلقہ روز بروز وسیع ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ کچھ ویب سائٹ بھی کھوار تحریریں اور ویڈیوز وغیرہ پیش کرتے ہیں۔

By the same author- Indigenious Games And Passtimes Of Chitrali Children

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com