<= BACK

چترال کی کتہ (شیخ) کمیونٹی میں شادی کی رسومات

فرید احمد رضا
01.08.2021

افغانستان کا صوبہ نورستان (سابق کافرستان) کئی وادیوں پر مشتمل ایک وسیع خطہ ہے۔ اس علاقے کے لوگ بیسویں صدی کے آغاز تک اپنے قدیم مذہب اور منفرد طرز زندگی پر کاربند رہے۔ یہ لوگ آزاد قبائل کی صورت میں رہتے تھے لیکن قریبی ریاست چترال کی بالادستی کو کسی حد تک تسلیم کرتے تھے۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت اور وسط ایشیاء میں روس کے درمیان بالادستی کی کشمکش میں اس علاقے نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی۔ تاہم ڈیورنڈ لائن کے تعین کے موقع پر انگریزوں نے کافرستان کو اپنے حلقہ اثر باہر چھوڑ دیا۔ اس سے فایدہ اٹھا کر 1896 میں افغانستان کے امیر عبد الرحمٰن نے کافرستان پر فوج کشی کی اور یہاں کے باشندوں کو مسلمان بنایا۔ ان میں سے بہت سوں کو اس علاقے سے نکال کر کابل وغیرہ لے جایا گیا۔ اس موقع پر علاقے کی مشرقی وادیوں سے کتہ (Kati) قبیلے کے لوگوں کا ایک گروہ نقل مکانی کرکے چترال کے حدود میں پناہ گزیں ہوا۔ یہاں پر انہیں بمبوریت، رمبور اور گبور وغیرہ وادیوں کے آخری سروں پر بسایا گیا۔ یہاں پر یہ لوگ کچھ عرصہ اپنے قدیم مذہب پر کاربند رہے لیکن رفتہ رفتہ ان میں اسلام پھیلتا گیا اور 1930 کی دہائی میں قدیم مذہب کے ماننے والے ختم ہو گئے۔ اب یہ لوگ شیخ کہلاتے ہیں اور راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی قدیم ثقافت کے بہت سے اجزاء کو بدستور اپنا رکھا۔ وہ اپنی ثقافت اور زبان پر فخر کرتے ہیں۔ ان کی یہ فخریہ سوچ ان کی ثقافت اور زبان کو زندہ رکھنے کا باعث رہی ہے۔

کتہ کمیونٹی کی ثقافت کے اجزاء میں شادی کی رسومات بہت ہی منفرد ہیں جن کا ذکر یہا ں پر کیاجارہاہے۔
شادی کی رسم کاآغاز: جب کسی کا بیٹا شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو والدین کی طرف سے لڑکی ڈھونڈنے کا آغاز ہوتاہے۔اگر کسی کے ہاں والدین کی خواہش کے مطابق لڑکی مل جائے تو کمیونٹی کے معتبر لوگوں میں سے جو اس خاندان کے قریب ہیں ان کا چناؤ کیاجاتاہے۔ اس کے بعد ان مخصوص لوگوں کو گھر بلا کر خصوصی طور پر خاطر تواضع کرنے کے بعد ان کو اپنا مدعا بتاکر لڑکی کے گھر کی طرف رشتہ کی خبردینے کےلیے بھیجا جاتاہے۔ اس طرح لڑکی کے خاندان کی طرف سے رضامندی کے بعد رشتے کی تاریخ طے کرتے ہیں ۔ کتہ کمیونٹی میں شادی کا طریقہ کار بالکل سادہ ہے یہاں پر منگنی، زیورات یعنی سونا بنانے کا رواج نہیں ہے۔ شادی سے پہلے دونوں طرف کے والدین کے درمیان بات ہوتی ہے ۔ شادی طے ہونے کی صورت میں مقررہ دن کو لڑکے کی طرف سے لوگ آتے ہیں ۔ دلہن کے گھر کھانا کھاتے ہیں اور حق مہر طے ہوتا ہے اور دلہا اپنی دلہن کو لیکر اپنے گھر روانہ ہوجاتاہے۔

حق مہرکی مقدار : کتہ کمیونٹی میں حق مہر کا حساب گائے کی مالیت کے حساب سے لگاتے ہیں۔ یعنی حق مہر کا تعین گائیوں کی تعداد کے حساب سے لگایا جاتاہے۔ کتہ کمیونٹی شیخاندہ میں لڑکی کا حق مہر چالیس گائیں مقرر ہے۔ اس رسم کے مطابق حق مہر میں دی گئی ایک گائےکی قیمت صرف چالیس ہزار روپے ہیں۔ عام خریدوفروخت میں گائے کی قیمت کم یا زیادہ ہوسکتی ہے لیکن مہر کےلیے اس کی متعین قیمت چالیس ہزار روپے ہی ہے۔ اس حساب سے کتہ کمیونٹی میں ایک لڑکی کا حق مہر چارلاکھ روپے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ حق مہر گائے کےشکل میں ہی ادا ہوں بلکہ اس کے قیمت کے حساب سے نقد بھی ادا کیاجاسکتاہے اور اس کے بدلے اتنی ہی مالیت کی کوئی اور چیز بھی دی جاسکتی ہے۔لیکن حساب گائیوں کا ہی ہوتا ہے۔

حق مہر کے سلسلے میں کتہ کمیونٹی میں ایک سخت رواج یہ ہے کہ حق مہر لڑکی کے والدین کو شادی کے دن بیاہ کے لے جانے سے پہلے ادا کرنا لازمی ہے۔ اگر دلہا کی جانب سے حق مہر شادی کے دن تک ادا نہیں کیا جاسکا تو دلہا کا دلہن کے ساتھ نکاح ہوجائے گا لیکن نکاح کے بعد دلہن دلہا کےساتھ ان کے گھر نہیں جائے گی اپنے گھرہی میں رہے گی۔ حق مہر میں ایک اور ضروری بات یہ ہے حق مہر لڑکی یعنی دلہن کو نہیں بلکہ اس کے والد کو ادا کیاجاتاہے۔ حق مہر کا تعین ہونے کے بعد رواج کے مطابق اس میں رعایت کی گنجائش بالکل نہیں ہے ۔ کتہ رواج میں یہ لازم ہے کہ پہلے حق مہر ادا ہو بعد میں لڑکی کی رخصتی ۔نکاح کے بعد لڑکا اپنے سسرال میں رہ سکتاہے بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق بھی رکھ سکتاہے لیکن جب تک حق مہر ادا نہ ہوں دلہا دلہن کولے کر اپنے گھر نہیں لے جاسکتا۔ ایک اور منفرد بات یہ ہے کہ سسرال میں رہتے ہوئے اگر جوڑے کے ہاں بچے بھی پیدا ہوجائے تو اس کو پالنے وغیرہ کے اخراجات کی ذمہ داری رواج کے مطابق سسر ال کی ہے۔ ہاں اگر داماد اپنی طرف سے کچھ خرچ کرنا چاہے تو الک بات ہے۔

جہیز :کتہ رواج کے مطابق کتہ معاشرے میں بیٹی کو اپنی طرف سے جہیز دینے کا رواج نہیں ہے۔ بیٹی کی ضرورت کی چیزیں بیٹی کے حق مہر کے پیسے سے خریدے جاتے ہیں ۔البتہ ان میں والد اپنی طرف سے کچھ پیسے ملالے وہ الک بات ہے۔

کتہ کمیونٹی میں شادی کا ایک خوبصورت رواج یہ بھی ہے کہ جب دلہا اپنی دلہن کو لیکر گھر سے روانہ ہو تو ان کے سامان میں سسر کی طرف سے ایک سال کی خوراک (یعنی دلہا اور دلہن کےلیے ) رکھ دیتے ہیں ۔ ان میں ۳۵ سے ۴۰ من آٹا، سال کی خوراک تک کےلیے پنیر، گھی،دالیں وغیرہ ایک ساتھ بیٹی کے ساتھ سسرال بھیج دیا جاتاہے۔یہ چیزیں جنس ہی کی صورت میں ہوتی ہے۔اس میں فلسفہ یہ بیان کیاجاتاہے کہ پہلے سال لڑکی اپنی سسرال میں نئی ہوتی ہے اور وہ اپنی طرف سے گھر سے کچھ خرچ کرتے ہوئے شرماتی ہے اس لیے اس کو اس کے گھر سے خرچہ دیاجاتاہے۔

لڑکی کے ہاں کھانا:دلہن کے گھر میں شادی کے دن آنے والے مہمانوں کےلیے کھانا بیٹی کے حق مہر کے پیسوں سے اس سے اجازت لینے کے بعد پکایاجاتاہے۔ اس خرچے میں والد جتنا پیسہ اپنی طرف سے ملا سکتا ہے۔ لیکن کتہ لوگوں کی رواج کے مطابق لڑکی کے والد لڑکے والوں سے کھانے کےلیے کچھ الگ ڈیمانڈ نہیں کرسکتا۔

لڑکی کے گھر میں دعوت کا طریقہ یہ ہے شادی کی مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے قریب کے رشتہ داروں اور گاوں والوں کےلیے کھانے کا انتظام کیاجاتاہے۔لڑکی کے ہاں دعوت محدود اور قریبی گاوں اور قریبی رشتہ دار ہی شریک ہوتے ہیں۔ کتہ کمیونٹی میں شادی کے دن مہمانوں کا تواضع ایک ہی روایتی خوراک جوݰ سے کیاجاتاہے ۔

کتہ رواج میں دلہن کو شادی کے وقت گھر کے اندر لےجانے ،ساس اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ ملانے کا بھی کوئی رواج نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو دلہا اپنی دلہن لینے بھی اس کے گھر نہیں آتا بلکہ وہ اپنے گھر میں گھریلو کام میں مصروف رہتاہے۔ دلہن کی طرف سےسسر ساس کی تعظیم یا تخفہ تخائف پیش کرنے کا بھی رواج نہیں ہے ۔شادی کے دن دلہا کےلیے کوئی خاص عروسی جوڑے کا بھی رواج نہیں ہے۔

دلہا کی طرف سے آئے ہوئے مہمانوں میں کچھ کو خاص مہمان کا درجہ دیاجاتاہے۔ جن کا نام پہلے ہی سے دلہن والوں کو بتادیا جاتاہے۔ ان خاص مہمانوں میں دلہا کا بڑا بھائی اورماموں ضرور شریک ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی بھی ہوسکتاہے۔ عام اور خاص مہمان میں فرق یہ ہوتاہے کہ جوخاص مہمان ہوتے ہیں ان کےلیے واپس جاتے وقت تخفے کے طور پر کپڑے کے جوڑے دیئے جاتے ہیں اور عام مہماں کو تخفہ نہیں دیا جاتا۔ دلہا (لڑکے) کی طرف سے خاص مہمان بن کے آنے والے ہمیشہ مرد ہی ہوتے ہیں۔

اس طرح جب دلہن دلہا کے ساتھ اپنی سسرال کو روانہ ہوتی ہے تو دلہن کی طرف سے بھی خاص مہمان کے طور پر کچھ عورتیں ان کے ساتھ جاتی ہیں۔ اس میں رواج یہ ہے کہ جب دلہا اپنی طرف سے خاص مہمان کے طور پر ایک مہمان لائے گا تو دلہن کے ساتھ خا ص مہمان دو جائیں گے۔ اگر دلہا دو لائے گا تو دلہن کے ساتھ چار جائیں گے۔ اس طرح رواج کے مطابق دلہن کے ساتھ آئے ہوئے مہمانوں کی تعدا ددلہا کے خاص مہمانوں سے ڈبل ہی ہونگے ۔ دلہن کے ساتھ آئے ہوئے مہمان خاص عورتیں ہی ہوں گی۔

شادی کے دن جب دلہا دلہن کے گھر پہنچتا ہے تو خوشی کے اظہار کےلیے مہمانوں پر اخروٹ نچھاور کیے جاتے ہیں ۔ جب دلہن کو لیکر دلہا گھر سے روانہ ہوکر جس گاوں سے بھی گزرے گا، گاوں والے عروسی جوڑے پر آخروٹ پھینک کر دلہا اور دلہن کے ساتھ خوشی میں شریک ہونے کا اظہار کرتے ہیں ۔

شادی کا بڑا کھانا دلہا کے ہاں ہوتاہے۔ اس پروگرام میں علاقے کی معززین، رشتہ دار،یاردوست ،بچے بوڑھے سب شامل ہوتےہیں۔ عموماً یہ کھانا رات کو دیاجاتاہے۔ شادی کے موقع پر مہمانوں کو صرف ایک روایتی ڈش جوش سے تواضع کیاجاتاہے۔علاقے کے بڑے چھوٹے ،امیر غریب جو بھی آئیں سب کو ایک طرح سے برتاؤ کیاجاتاہے۔ کھانے کی شروعات اس طرح سے کیاجاتاہے کہ سب سے پہلے کھانا بچوں کو دیاجاتاہے۔کھانے کا معیار سب کا یکساں رہتاہے بچوں کو بھی وہی کھانا دیاجاتاہے جو بڑوں کو دیاجاتاہے۔ جب تک بچے کھانا کھاکے فارع نہ ہوں بڑوں کا کھانا شروع نہیں ہوتا۔ بچوں کو کھانا دینے کے بعد ان کو فارع کیاجاتاہے پھر بڑوں کا کھانا شروع ہوتاہے۔ شادی بیاہ کے کھانے کی دعوت پر بلانے کا طریقہ بھی سیدھا سادا ہے ظہر یا عصر کی نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں اعلان ہوتاہے تو سارے گاوں والوں کو اس کا پتہ چل جاتاہے۔

شیخاندہ میں شادی کا موسم اکتوبر سے شروع ہوکر جنواری تک کا ہے۔جب علاقے کی لوگوںً کے کھیت فصل سے خالی ہوجاتے ہیں۔ شادی بیاہ کی خوشی میں بزکشی کھیلا جاتا ہے۔ بزکشی کےلیے بڑا میدان چاہیے اس لیے کھیت خالی ہونے کے بعد بزکشی کےلیے میدان مل جاتاہے تو شادی کا موسم شروع ہوتاہے۔

شادی بیاہ کے دن کی خوشی میں ناچ گانے کی محفل بھی ہوتی ہے۔ گاوں والے یاد دوست جمع ہو کر میوزک کا پروگرام کرتے ہیں۔ کتہ لوگوں کی شادی بیاہ کا رواج سیدھا سادہ ہے۔ منگنی کی رسم کا یہاں پر رواج نہیں۔ سونے ،زیوار وغیرہ کا بھی رواج نہیں ۔شادی میں دلہن یا دلہا کو تخفہ دینے یا نقد رقم کا رواج نہیں ۔قریب سے قریبی رشتہ دار بھی نقد رقم یا تخفہ کچھ نہیں دے گا۔ البتہ شادی کے دن مہمانوں کو خوش امدید کہنے، انتظام کرنے ، ٹینٹ لگانے، کھانا پکانے مہمانوں کو بیٹھانے ،کھانا دینے اور انتظامی کاموں میں گھر والوں کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں ۔

کتہ رسم رواج میں ایک سے زیادہ شادی کا رواج عام ہے۔ یہاں پر ایک سے زیادہ شادی کو برا نہیں سمجا جاتاہے۔ عورتیں ،لڑکی کے گھر والے،خود والدین بھی اس کا برا نہیں مناتے ہیں ۔ عموماً کتہ کمیونٹی کے لوگوں کا رویہ دوسری شادی کےلیے یہ ہے کہ جب کوئی شخص معاشی طور پرخوشحال ہے اور رواجی طور پر حق مہر سے لیکر دوسری ضروریات پوری کرسکتاہے تو ایک سے زیادہ شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔جب میں نے کتہ کمیونٹی کے ایک ممبر سے اس بابت پوچھا تو اس نے اپنے قریبی رشتہ داروں کا گن گن کر بتایا ان میں آٹھ میں سے سات بندوں نے دو دو شادیاں کی تھی۔ پھر اس نے ہنس کر کہا ہمیں کسی کی شادی سے کیا لینا دینا ۔ہم تو اس کے ہاں جوش (مقامی کھانا) کھانے وہاں پر حاضر ہوتےہیں۔

جدید ایجادات کی وجہ سے دنیا ایک گلوبل ویلج چکی ہے ۔ دنیا کے ایک کونے میں ہونے والے واقعے کا اثریقینی طور پر دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والے لوگوں پر کسی نہ کسی طرح پڑجاتاہے ۔لیکن اچھی بات یہ ہے جدیدیت کے اس دور میں کتہ کمیونٹی شیخاندہ نے اپنی زبان و ثقافت اور رسم رواج اور الک پہچان کو برقرار رکھنے میں نہ صرف کامیاب رہے ہیں بلکہ اپنی روایات پر فخر بھی کرتے ہیں۔یہیں فخریہ انداز کتہ کمنونتی کے رسم رواج کو بچاکے رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیاہے۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com