Back

چترال کی کلاش کمیونٹی میں شادی کی رسومات

فرید احمد رضا
28.05.2024

چترال درجن بھر لسانی اور ثقافتی گروہوں کا وطن ہے۔ یہ گروہ صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور اپنے رسوم رواج کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں ۔ چترال میں بسنے والی ان لسانی برادریوں میں سے ایک برداری کلاش بھی ہے۔کلاش اس وسیع خطے کے قدیم باشندوں کی آخری باقیات ہیں جو اپنے اصل مذہب اور کلچر پر اب بھی کاربند ہیں۔ کسی زمانے کلاش لوگ جنوبی چترال میں ایک وسیع علاقے میں آباد تھے،لیکن اب یہ سکڑ کرچترال کی تین ذیلی وادیوں بمبوریت ،رومبور اور بریر میں محدود ہوچکے ہیں۔ ان وادیوں میں بھی ساری آبادی کلاش لوگوں کی نہیں۔ یہاں کلاش لوگوں کے ساتھ کچھ کھوار بولنے والے مسلمان بھی رہتے ہیں، نیز ان وادیوں کے بالائی سروں پر کتہ وری بولنے والے نورستانی نسل کے لوگوں کی آبادیاں ہیں۔

چونکہ کلاش گروہ یہاں کی قدیم آبادی کا وہ حصہ ہے جو ابھی تک تبدیلیٔ مذہب کے عمل سے نہیں گزرا ہے۔یہ لوگ نہ صرف اپنے ہزاروں سال پرانے مذہبی عقاید اور اعمال پر عمل پیرا ہیں بلکہ پرانے ثقافتی طور طریقے اور رسم و رواج بھی بڑی حد تک ان میں زندہ ہیں۔ چنانچہ ان کے تہوار، شادی بیاہ اور موت کے رسوم، ان کا لباس اور ان کی خوراک، سب کچھ اردگرد کی مسلم آباد ی سے کافی مختلف ہیں۔ یہاں پر ہم کلاش لوگوں میں شادی کے طور طریقوں اور اس سے منسلک رسومات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

کلاش لوگوں میں چھوٹی عمر میں شادی کا رواج زیادہ نہیں ہے۔عموماً شادیاں بلوغت کے بعد ہی ہوتی ہیں۔مذہبی طور پر ان کے ہاں شادی برادری سے باہر ہی ممکن ہے۔ براردی سے مراد ایک آدمی کی اولاد ہے جو ساتویں پشت تک ایک برادری شمار ہوتی ہے۔ اس کے اندر لڑکے اور لڑکی میں شادی نہیں ہو سکتی۔ جب کسی برادری میں سات پشتیں مکمل ہو جائیں تو آٹھویں پشت پر شادی ممکن ہو جاتی ہے۔ ایسی شادی کی صورت میں صورت میں ایک نئی برادری وجود میں آجاتی ہے۔

کالاش کمیونٹی میں دو قسم کی شادیوں کا رواج ہے۔ایک شادی وہ جس میں دونوں خاندانوں کی مرضی شامل ہوتی ہے۔ اس طریقے میں لڑکے کے گھر والے گاؤں کے معتبرات کو لیکر لڑکی کے گھر رشتہ مانگنے جاتےہیں۔ لڑکی کے خاندان کی طرف منظوری کے بعد دونوں خاندانوں کی طرف سے شادی کی تیاریاں کی جاتی ہے۔

دوسری قسم کی شادی میں لڑکا لڑکی اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر خود ہی شادی کر لیتے ہیں۔اس میں طریقے میں منگنی وغیرہ کی رسومات نہیں ہوتیں ، تاہم اسے درست شادی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی شادی کو "اڑاشنگ" کہتے ہیں۔اڑاشنگ کرنے والی لڑکی اگر غیر شادی شدہ ہے تو اس کو آسانی سے قبول کیاجاتاہے کوئی خاص تنازعہ نہیں بنایا جاتا۔ تاہم کوئی شادی شدہ لڑکی کسی مرد کے ساتھ چلی جائے تو اس میں پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اس تنازعے کا حل کلاش دستور میں یہ ہے کہ اڑاشنگ کرنے والا مرد لڑکی کے سابق شوہر کو جرمانہ ادا کرے گا۔ یہ جرمانے کی مالیت سابقہ شوہر کے ان اخراجات کا دوگنا ہوگا جو اس نے اپنی شادی کے موقع پر کیے ہوں۔ اس جرمانے کو دوکن کہتے ہیں۔ دوکن ادا کرنے کے بعد لڑکی کی دوسرے مرد سے شادی قانونی تصور ہوتی ہے۔

کلاش لوگوں میں دلہا دلہن کے لیے کسی خاص عروسی لباس کا رواج نہیں۔ شادیاں عام طور پر کسی نہ کسی تہوار ، خصوصاً موسم بہار کے تہوار جوشی کے دوران انجام پاتی ہیں ۔ چونکہ تہواروں پر یہ لوگ خصوصی لباس پہنتے ہیں اس لیے شادی کے لیے الگ لباس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

شادیاں چونکہ تہوار کے دوران ہوتی ہیں اور اس وقت ساری کمیونٹی جشن منا رہی ہوتی ہے، اس لیے شادیوں کی کوئی ا لگ رسومات نہیں ہوتیں۔ تہوار کے دوران ہی لڑکی خاوند کے گھر چلی جاتی ہے۔ شادی کے مہینے دو مہینے تک لڑکی اپنی سسرال میں رہتی ہے۔اس کے بعد مناسب موقع پر لڑکی کا والد اپنی بیٹی کو گھرپر ان کے شوہر اور سسرال والوں سمیت دعوت پر بلاتاہے ۔ اس موقع پر لڑکے والے لڑکی والوں کے لیے کچھ تحفے تحائف ساتھ لاتے ہیں ۔ اس دن دلہن کے گھر میں دلہا کے گھر والوں کی خوب اوبھگت کی جاتی ہے۔مہمانوں کی عمدہ ضیافت کی جاتی ہے اور اس موقع پر رقص و موسیقی کا پروگرام بھی ہوتا ہے۔ اس طرح کچھ وقت گزارنے کے بعد دلہا کے گھر والے یہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔ دولہا، دلہن کچھ دنوں کے لیے وہاں پرہی ٹھرجاتے ہیں جب یہ چند دن گزار کر گھر سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو لڑکی والے بیٹی کو مال مویشی جہیز کے طور پر دیتے ہیں۔

کلاشوں میں حق مہر کا کوئی تصور نہیں۔ اسی طرح عورت کو وراثت میں بھی حصہ دینے کا رواج نہیں۔ چنانچہ روایتی طور پرعورت کے پاس ذاتی ملکیت نہیں ہوتی۔ تاہم جدید دور میں عورتیں بھی کماتی ہیں اور ان کے پاس ذاتی ملکیت بھی ہوتی ہے۔

ان لوگوں کے ہاں شادی کے بندھن کو توڑنے کا اختیار مرد اور عورت دونوں کو حاصل ہے۔ مرد اگر طلاق دے دے تو اسے وہ تمام چیزیں واپس کرنی ہوتی ہیں جو عورت کو اس کے والدین نے دی تھیں۔ اسی طرح اگر عورت چھوڑ کر چلی جائے تو اسے مرد کو وہ تمام تحفے واپس کرنے ہونگے جو مرد نے عورت کے گھر والوں کو دیے تھے۔

کلاش لوگوں میں ایک سے زیادہ شادی کا عمومی رواج نہیں ہے ۔یہ لوگ ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں کرتے،بلکہ پہلی بیوی کی وفات یا طلاق ہونے کے بعد پھر دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ تاہم ایک سے زیادہ شادیوں پر کوئی پابندی بھی نہیں۔ پہلی بیوی سے اولاد یا نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں کبھی کبھار دوسری شادی کرلیتے ہیں۔

farid raza

Farid Ahmad Raza, President Mother-tongue Institute for Education and research (MIER) is a linguist and researcher, working on language promotion, documentation and multilingual education in Chitral
.He is Editor in-chief of a journal "Khowar Nama" for Khowar language
Email: farid.mier@gmail.com

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com