Back

علامہ اقبال کے دو معاصر

لیفٹیننٹ کرنل خواجہ عبدالرشید

علامہ اقبال کے دو معاصر اہل علم کا یہ تذکرہ ماہنامہ نقوش میں چھپا تھا۔ یہاں پر اس مضمون کا وہ حصہ پیش کیا جاتا ہے جو محمد ناصر الملک مہتر چترال کے بارے میں ہے۔
دوسری شخصیت کتاب "راز بے خودی" کے مصنف خان بہادر پیرزادہ مظفر احمد مخلص بہ فضلی قریشی صدیقی نقشبندی آفاقی ہیں، جنہوں نے ۱۳۳۷ء میں یہ مثنوی شائع کی۔

نہ من تنہا دریں میخانہ مستم .. ازیں می ہم چوں من بسیار شد مست
اقبال کے ان دو معاصرین میں سے پہلے صاحب صحیفۃ التکوین محمد ناصر الملک(ہز ہائی نس والی چترال) تھے جنہوں نے منظوم احسن التحقیق فی مباحث التخلیق لکھ کر نام پیدا کیا ۔ درحقیقت یہ پہلا فارسی کلام تھا جس میں سائنسی نقطہ نگاہ سے تخلیق کائنات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کی اشاعت سے پہلے وہ خود اپنے تعارف میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے متعدد معاصرین کی طرف رجوع کیا جنہوں نے ان کے کلام کی داد دی چنانچہ کہتے ہیں:
’’درین اثنا برائے چند روز اتفاق در لاہور افتاد و بعضے احباب اکابر فضلا مثل سر محمد اقبال مضامین کتاب را نامکمل تصور فرمودہ۔ لہٰذا از ۱۹۲۸ء تا حال کہ ۱۹۳۶ء است بمطالعہ جدید ترین کتب متعلق این مباحث اشغال درزیدم و ہر یک مسئلہ را کہ اہم دانستم جزو این صحیفہ نمودم‘‘۔
پھر کہتے ہیں کہ: ’’از ناظم مکتبہ علمیہ مرقیہ دارالعلوم جناب استاذ مولوی عبدالرحیم نمود امدادے کافی و شافی یافتم‘‘۔

اس کے معاً بعد تعارف میں لکھتے ہیں:
’’صحیفہ ہذا علامہ مشرقی نیز در ۱۹۳۲ء بغور ملاحظہ فرمودہ اند و در بعض مسائل علم الحیات مشورہ اصلاح ہم دادہ سعی مصنف رابنظر استحسان دیدہ اند‘‘۔

ان حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے زمانے کے معروف اور جید علماء سے انہوں نے رجوع کیا۔ اس میں کلام کی گنجائش نہیں کہ علامہ اقبال اور علامہ مشرقی اپنے زمانے کے دو فقید المثال عالم تھے جو جدید و قدیم علوم سے بہرو ور تھے۔ اور پھر مولانا عبدالرحیم (کلاچوی) کامقام بھی کچھ کم نہ تھا۔ مگر اپنے خیالات جدید کی تطبیق قرآنی آیات کے ساتھ کی ہے اور یہی ان کے کلام کی شان ہے۔ جدید سائنسی طرز فکر کو فارسی شاعری میں منتقل کرنے والے بہت کم لوگ ہیں۔ اور اگر ہم یہ کہہ دیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی بھی نظر نہیں آتا تو ہم مبالغہ سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ آئندہ صفحات میں جن اشعار سے ہم مثالیں دیں گے قارئین کو معلوم ہو جائے گا فرماتے ہیں:
’’کسے کہ جو یائے معارف قرآنی است و بامسائل فلسفہ نیز شغف دارد اگر درمیان بردو تطابق می بینند جرمش چیست؟ واگر معانی تنزل بغیر تاویل بایک مسئلہ فلسفہ تو افق بپذیر و دراخفائے آن فائدہ یعنی چہ؟‘‘

اپنے پیش روئوں میں سے بھی تین مستند ہستیوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن کا علم دنیائے اسلام میں معروف و مقبول ہے اور جن سے انہوں نے استفادہ کیا ہے لکھتے ہیں:
’’در سنین ماضیہ و حال افراد جلیل القدر وعظیم المرتبت مثل سرسید و مفتی محمد عبدہ و علامہ طنطاوی ہمچون تطابق رامعلوم نمودہ اظہار آن را مفید و دانستہ اندوہا اشاعت آں کوشیدہ‘‘۔

ان کے علاوہ مسیحی علمائوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جن سے انہوںنے استفادہ کیا ہے بلکہ جو مشہور جدید سائنسدان ہیں سب کے نام گنواتے ہیں۔ ان کے نظریات کو بھی بالتشریح حواشی میں ذکر کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اپنے اس منظوم کلام کو جدید ترین بنانے میں انہوں نے کسی علم سے کنارہ کشی نہیں کی بلکہ سب کو درمیان میں لایا گیا ہے اور آیات قرآنی کے ساتھ تطابق کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ قرآن حکیم میں موجود ہے:
جمیع العلم فی القرآن لکن .. تقاصر عنہ افہام الرجال

تعارف میں ایک مقام پر آ کر کیا عجیب بات کر گئے ہیں لکھتے ہیں:
’’معنے ہر لفظ قرآن در ہفتاد پردہ محجوب و مستور است و ہر پردہ کہ آزآن و اشود معنی جدید ہویدا می شود کہ بالفاظ دیگر ظہور نور است بخیال احقر اگر فخر الدین رازی حکمت یونان را بہ قرآن دید خوب کردد ۔ اگر طنطاوی فلسفہ جدید در حقائق سائنس رادر قرآن یافت کارے مرغوب کرد۔ حقائق قرآنیہ بالا تر از ہمہ است۔ قرآن مجید یک آئینہ ایست کہ مردم ہر عصڑ حسب استعداد خود تابہ حد کمال کہ منتہائے علوم مروجہ آن عصر است صورت کمال خود را اور آن مشاہدہ می توانند نمود و اگر بالفرض بقائے ایں دنیا ملیون ہا سال باشد انکشاف حقائق در علوم مادیہ ہم چنان بامعارف قرآنیہ دوش بدوش خواہد رفت:
ہست قرآں سر بسر گفتار حق
نیز عالم جملگی کردار حق کے بود کردار و گفتار خدا
ہم چو قول ماز فعل ما جدا

چونکہ کلام سارا فارسی زبان میں ہے دیباچے میں فارسی زبان کے رواج کے متعلق بہت عمدہ بات کر جاتے ہیں جو کہ پاک و ہند کے فارسی دانوں کے لیے ایک مرغوب شے ہو گی میں ا س کا یہاں نقل کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں فرماتے ہیں:
’’فارسی اختصاصی بہ ایران ندارد بلکہ اکثر قطاع ماوراء النہر و بدخشان و افغانستان بہ آن تکلم می کنند و فارسی در بلاد ہندوستان ہم ازیں ممالک شیوع یافتہ نہ کہ از ایران۔ فارسی ہندوستان ہمان لغت اہل ماورا النہر و بدخشان و افغانستا ن است کہ از عہد سلطان محمود غزنوی تا عصر بابری در خطہ ہندوستان نفوذ و شیوع واشت ۔ پس اگر التزام لغت ایران نکردہ شود چنداں حرج نخواہد بود۔ اصطلاحات علمیہ را در عربی توان جست نہ در ژندو اوستائے زردشت‘‘۔

اب کچھ کلام ملاحظہ فرمائیے اور داد دیجیے کہ ان کا فکر کس قدر بلند ہے نہ صرف فکر بلند ہے بلکہ بعض بعض جگہوں پر تو مسائل کے حل میں اقبال سے بھی اولیت لے گئے ہیں:
نیست کس رہبر ترا در این طریق
بیہدہ ضایع مکن فکر دقیق
(یعنی فارسی زبان میں اس سے پہلے ایسی باتیں تم سی کسی نے نہیں کی ہیں)
کان حکمت ہست قرآن مبین
غفلت از آن کرد قوم مسلمین
از کتاب حق نہ جستہ راز ہا
درپے یونانیاں رفتیم ما
علم یوناں ناقص و ابتر بود
علم قرآن کامل و برتر بود
از فلاطوں و ارسطو تابہ کے
سوخت علم کہنہ چوں خشکیدہ نے
از محیط عرض گفتہ نکتہ سنج
ہست یکصد کم الوف بست و پنج
ور حساب میل قطرش آمدہ
ہفت ہزارو نہ صد و ہم شانزدہ
بنگر اندر دور بینی ماہ را
تا درون پردہ یابی راہ را
کوہ ہا بینی در ان و دشت ہا
کان گواہی میدہد بر قول ما
منکشف شد رمز ہائے ارتقاء
آنچہ بود از چشم ما در اختفا
آنچہ دید ستم بہ قرآن کریم
حل آن اسرار ادوار قدیم
قبل از شرح و بیان ارتقاء
از نجوم و اختران گویم ترا
شد ز بحث نجم آغاز کتاب
پس ہبوطے تابہ جرثومے بہ آب
بعد از آں آید صعودے سربسر
تابہ دور آدم والا گہر
باش در شب محو سیر آسمان
کن تماشائے طلسم اختران
ایں ہمہ سیارہ ہائے خوش خرام
منسلک جملہ بہ سلک یک نظام
ہر یکے دارد مدار خویشتن
ہر یکے رقصد بہ تار خویشتن
احمدؐ آخر زمان خیر البشر
گفت بسیار اند دنیا ہا دگر
ہست ہریک پر ز مخلوق خدا
آدم و پیغمبر ہر یک جدا
بیست لک دیگر مثیل کہکشان
در فضائے بیکران دیدن توان
راز اصل حافرات آن زمان
ہست پنہاں از عقول مردمان
گفت دانا از اثیر و برق بود
آمد ذرات مادی در وجود
این اثیر آمد بہ اول کجا
ازچہ پیداگشت برق شعلہ زا
شد زبرق منفی و مثبت اثیر
جابجا پر از گرد ہاے کشمیر
تو اثیرش گو ویا نور و ضیاء
زین نباید نقص در گفتار ما
روشنی امواج مقناطیس و برق
گرہمے خوانی اثیرش چیست فرق
یا بد اندر پیچ و تاب موجہ
صورت مادی وجود ذرہ
علت اولیٰ مادہ بود نور
گر بپرسی از کجا کرد این ظہور
امتحان ذرہ کن در خرد بین
عالم صغریٰ بہ بینی اندرین
از دخان اجرام را بود ابتدا
میدہد ازین خبر قرآن ما
این زمان بینی کہ از جذب قمر
مدوجزر آید بہر شام و سحر
بود کے دور ہیولائے قدیم
کے جدا گشتند اجسام سدیم
عالم نو ہر زمان سازد خدا
چند عالمہا برد سوئے فنا
قید ابعاد ثلاثہ را گزار
سوئے بعد چار بین شورہ سپار
پس ز تحلیل زمان اندر مکان
بعد چارم را بگو بعد زکان
ہم چنین ھریک ازیں سیارگان
دارد ایامے خود و ہم سالیان
در تناسب با مسافت ز آفتاب
سال ہر سیار را خواہی بباب
این بیانم ہست از بس مختصر
در کتاب شرح این را در نگر

اسی طرح سے اشعار بالترتیب چلتے چلتے ہیں۔ ارض و سما کی تخلیق کے مطابق اور ہر جنس کے لیے علیحدہ علیحدہ اشعار ہیں۔ مگر جس رنگ میں بھی کہتے ہیں جدید تحقیق کو نظر انداز نہیں کرتے۔ یہ ان کا ایک خصوصی وصف ہے۔ وہ تحقیق سے بخوبی آگاہ ہیں اور اصطلاحات سے بھی آشنا ہیں۔ جدید اضافی نظریے ان کے پیش نظر رہتے ہیں اورزمان و مکان کے حدود سے بھی آگاہ ہیں۔ حیات و موت کے نظریوں سے بھی واقف ہیں فرماتے ہیں:
ماہ شجاج آمد از معصرات
منتظم شد بر زمین بہر حیات
چوں بیامد از ہوا بر روئے خاک
بر زمین افتاد شو ہولناک
آب اندر بحر ہا جوشندہ بود
ابر گشتہ بر زمین با رندہ بود
نکتہ دیگر ہمے گویم بیاب
از کجا آمد ہمہ دریائے آب
آنکہ صالح تر بود پائندہ تر
انتخاب قدرت است این سر بسر
میدہد درس تنازع للبقاء
لیس للانسان الا ما سعی
دیکھئے کس خوبصورتی سے مسئلہ ارتقاء کو پیش کیا ہے:
شخص نادان ترک دنیا میکنند
مرد راہ ایجاد اشیاء می کند
یہاں لا رھبانیۃ فی الاسلام کی طرف اشارہ ہے اور تحقیق کو تصوف پر ترجیح دی گئی ہے جو اصل اسلام ہے۔
قبل آدم گفت آدم با بدند مردم انبوہ در ھر جا بدند
قربت انساں با بوزینہ نیست
بین این دو رشتہ دیرینہ نیست
نقص در قول خدا ہرگز مجو
نقص با باشد بہ فکر خام تو

غرضکہ اس طرح قرآن حکیم کے اسرار و روموز کھلتے چلے جاتے ہیں اور بڑی روانی کے ساتھ اشعار بہے چلے جاتے ہیں۔ ہم نے صرف یہاں کچھ انتخاب کیا ہے ورنہ پورا کلام ۱۷۰ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس انتخاب سے مقصد یہ بتانا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے معاصرین میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو انہی کی نہج پر سوچتے اور فکر کرتے تھے۔ جدید تعلیم سے بھی مزین تھے اور فکر نو سے بھی آشنا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے فکر کے اندر بھی تجدد ہے اور تقلید مفقود ہے۔ علامہ اقبال کے ہاں بھی فکری اجتہاد موجود ہے جو بات دیکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ علامہ اقبال کے ہمعصر مفکروں میں تقریباً تمام کے تمام اس مسلک کے لوگ تھے جو تقلید کے قابل نہیں سمجھتے تھے بلکہ مذہبی رجحانات میں اجتہاد کو ترجیح دیتے تھے۔ یہی ایک ایسا وصف ہے جو قوم کو آگے لے کر بڑھ سکتا ہے قوم پر سکوت طاری نہیں ہونے دیتا۔

صحیفۃ التکویں مکمل یہاں سے پڑھیں

کتاب "صحیفۃ التکوین" کا تعارف اور ترجمہ یہاں سے پڑھیں۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com