<= BACK

گلگت شہر کے بسنے کی روایتی کہانی

میجر(ر) ڈاکٹر فیض امان
27.05.2023
kargah

گلگت کی بگروٹ وادی کے مرزا بیگ کا خاندان مقامی روایات کا امین رہا ہے۔ وہ ان روایات کی بنیاد پر گلگت شہر کی قدیم تاریخ کے کچھ گوشوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ روایات شجرہ ہائے نسب، تاریخی واقعات اور لوگ گیتوں پر مبنی ہیں۔ یہ تحریر مرزا بیگ سے ایک گفتگو سے اخذ شدہ ہے۔

گلگت کا اولین نام “ست مس کو” تھا۔ گلگت شہرجس مقام پر ہے وہاں ایک بڑی جھیل تھی(1)۔ آبادی صرف موجودہ نوپور میں تھی جو بلندی پر واقع ہے۔ چونکہ یہاں پہنچنے کے لیے جھیل کو کشی میں پار کرنا پڑتا تھا، اس لیے اسے "نو پری" کہنے لگے، یعنی جہاں کشتی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ پھر یہ جھیل خشک ہوگیا تو اس جگہ کا نام "سارگن" پڑ گیا۔ سارگن اصل میں "سر گی نی دش" تھا یعنی "وہ جگہ جو پہلے جھیل تھی"۔ بعد میں اس جگہ کا نام "گری گرت" پڑ گیا یعنی "ایسی جگہ جہاں پتھر نہیں ملتے(2)"۔ رفتہ رفتہ یہ لفظ تبدیل ہوکر "گلیت" ہو گیا جو بعد میں باہر سے آنے والوں کی زبان پر مزید تبدیل ہو کر "گلگت" ہو گیا۔ تاہم مقامی لوگ اب بھی اسے گلیت ہی کہتے ہیں(3)۔

گلگت شہر کا اولیں حکمران شری بدت(4) تھا۔ شری بدت کے باپ کا نام بغرتھم (بگرتھم) تھا جس کا قلعہ وادی بگروٹ میں بولچی کے مقام پر تھا۔ اس قلعے کے کھنڈر اب بھی موجود ہیں جنہیں "بغرا" کہتے ہیں۔ وادی کا نام "بگروٹ" بھی بگرتھم کے نام سے نکلا ہے۔

شری بدت "دیواکو " تھا یعنی وہ دیوی دیوتاؤں سے ربط رکھتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں یہاں صرف نوپور آباد تھا، اس لیے شری بدت کا قلعہ بھی یہیں تھا(5)۔ نوپر کو سیراب کرنے والی نہر جس جگہ ندی سے نکلتی ہے وہاں سے اوپر اس کا قلعہ تھا۔ شری بدت نے یہاں چٹان پر ایک بت تراشوایا تھا جسے "یچھینی" کہاجاتا تھا۔ نوپور کے لوگ اس بت کی پوجا کرتے تھے(6)۔

اسی زمانے میں شری بدت نے نوپور میں ایک بڑا پتھر نصب کریا جسے "نیلو بٹ" یعنی نیلا پتھر کہتے تھے(7)۔ اس پتھر پر ایک مقدس برتن رکھتے تھے جسے 'بوبرے طاسو" یعنی بوبر کا طاس" کہا جاتا تھا۔ اس برتن کو "تراخانے راچو" بھی کہتے تھے یعنی تراخان خاندان کی خوش بختی کا برتن۔ اس پتھر پر "یودینی دیوی" کا سایہ تھا(8)۔ اہم رسوم کی ادائیگی یا اہم فیصلے کرنے کے لیے اکابرین اس پتھر کے گرد بیٹھتے تھے۔ فیصلے کے بعد اس پتھر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتے اور کوئی اپنی قسم توڑ دیتا تو یودینی اس کا سر کاٹ دیتا۔ چنانچہ اس خوف سے کوئی قسم توڑنے یا جھوٹ بولنے کی جرات نہ کرتا۔ نیلو بٹ اور یودینی کا تذکرہ ایک قدیم گیت میں یوں ہے:
بوبرے طاس جو نیلو بٹ پر ہے
یہ تراخان خاندان کی خوش بختی کا نشان ہے
اس کی حفاظت یودینی کرتی ہے
اس پر ہاتھ رکھ کر ہمیشہ سچ بولو
مغلوٹ بادشاہ مرد میدان تھا، ہم اس کے شکرگزار ہیں
اس کا بیٹا کمال راجہ بہادری سے لڑا


نوٹس

  1. قراقرم ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں اکثر پہاڑی تودے گرنے یا ذیلی ندیوں میں سیلاب انے سے سے دریاؤں میں جھیلیں بنتی ہیں۔ ایسی صورت میں بعض اوقات دریا بہت جلد اپنا راستہ کاٹ لیتا ہے جس سے جھیل خالی ہو جاتی ہے۔ تاہم کبھی کبھی ایسی جھیل صدیوں تک باقی رہتی ہے۔ ہنزہ کے مقام عطا آباد پر چند سال پہلے ایسی ہی ایک جھیل چکی ہے۔ گلگت میں ایسی جھیل غالباً دریائے ہنزہ میں سیلاب انے سے بنی تھی۔
  2. طویل عرصے تک جہاں دریا میں جھیل بنی رہتی ہے وہاں جھیل کی تہہ میں ریت اور مٹی جمع ہوتی رہتی ہے۔ جب جھیل خالی ہو جاتی ہے تو اس کی تہہ ریت اور نرم مٹی سے بنی زمین بن جاتی ہے۔ ایسے مقامات پر پتھر بالکل نہیں ہوتے۔ پہاڑی علاقوں میں دریا کے ساتھ ایسی زمینیں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔
  3. گلگت کا قدیم نام "درو داس" بھی بتایا گیا ہے جو غالبا بروشسکی نام ہے۔ بروشسکی میں درو کے معنی مارخور کا شکار ہے، اور دس کے معنی غیر آباد زمین۔ تو سارگن نام پڑنے سے قبل (سیلاب آنے اور جھیل بننے سے بھی پہلے) کا نام درو داس تھا۔
  4. شری بدت گلگت کا نیم افسانوی حکمران ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے مردم خوری کی لت لگ گئی تھی۔ کہتے ہیں باہر سے انے والے ایک شہزادے نے شری بدت کو اس کی بیٹی کی مدد سے قتل کر دیا۔ شری بدت کو گلگت کا آخری غیر مسلم حکمران بھی کہا جاتا ہے۔
  5. نوپورہ کی قدامت کا ایک ثبوت یہاں سے دریافت ہونے والی بدھ مت کی قدیم مخطوطات ہیں جو بھوج (birch) درخت کی چھال پر لکھے ہوئے ہیں۔ ان کا زمانہ چوتھی اور چھٹی صدی عیسوی کے درمیان کا ہے۔ ان کے بارے میں خیال ہے کہ یہ برصغیر میں بدھ مت کی قدیم ترین دریافت شدہ مخطوطات ہیں۔ یہ مخطوطات 1931 میں دریافت ہوئے تھے اور اب انڈیا میں ہیں۔
  6. اس سے مراد کارگاہ نالے کے دہانے پر چٹان میں کھدی ہوئی بدھا کی دیو قامت تصویر ہے۔
  7. یہ پتھر اب بھی موجود ہے اور گلگت پبلک لائیبریری کے سامنے نصب ہے۔ اس کی شکل کتاب جیسی ہے۔ ُ
  8. یودینی سے ایک جادوئی ڈھول منسوب ہے جو مخصوص حالات میں خود بخود بجتا تھا۔
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com