Back
پچھلے دنوں دیر کوہستان کے بالائی علاقوں میں جانے اور وہاں کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ جانے کی تقریب یوں تھی کہ گاوری لوگوں کی سماجی ترقی کے لیے کام کرنے والے ادارے "گاوری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروگرام" نے ان دنوں ایک کانفرنس میں مدعو کیا جس کا موضوع "تعلیم کے ذریعے قوموں کو با اختیار بنانا" تھا۔ کانفرنس دیر کوہستان میں تھل کے مقام پر ہوئی، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ علاقے میں تعلیم اور خصوصاً بچیوں کی تعلیم کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں۔ اس سلسلے میں صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تجاویز بھی پیش کی گئیں۔ اس موقع پر ہمارے لیے کمراٹ وادی کے سبزہ زاروں کی سیر کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ تقریب کے میزبان محمد زمان ساگر صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ہماری اچھی مہمانداری کی جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ اس سیر کے تاثرات نیز علاقے اور اس کے لوگوں کے بارے میں مطالعے کا حاصل پیش ہے۔
ضلع اپر دیر کے ہیڈ کوارٹر دیر شہر سے چند کلومیٹر نیچے کی طرف چکیہ تن کے مقام پر تین وادیوں سے آنے والے دریا ملتے ہیں۔ ان وادیوں میں سب سے بڑی وادی دیر کوہستان کہلاتی ہے۔ دیر کوہستان جسے جعرافیائی طور پر بالائی پنجکوڑہ کہا جاتا ہے، ایک طویل وادی اور اس کی کئی ذیلی وادیوں پر مشتمل ہے۔ انتظامی طور پر یہ اپر دیر ضلع کا حصہ ہے اور دو تحصلیوں شرینگل اور کلکوٹ میں تقسیم ہے۔ کلکوٹ تک دیر کوہستان کی وادی تنگ ہے اور یہاں سے اوپر کھل جاتی ہے۔ کلکوٹ سے کمراٹ تک دریا کے دونوں کناروں پر ہموار قابل کاشت زمین دستیاب ہے۔ چنانچہ تقریباً بیس کلومیٹر کے علاقے میں مسلسل آبادی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ذیلی وادیوں جیسے جاز بانڈہ اور باڈگوئی میں بھی آبادیاں ہیں۔ باڈگوئی سے ہو کر سڑک سوات کوہستان میں کالام تک جاتی ہے اور سیاحوں کے لیے کشش رکھتی ہے۔ جاز بانڈہ بھی پر کشش مقام ہے اور سیاح بہت جاتے ہیں۔ مین وادی میں سیدھے جائیں تو کمراٹ آتا ہے جو سیاحوں کی بڑی منزل ہے۔ یہ وادی آگے جا کر چترال کی بشقار گول وادی سے ملتی ہے۔ کہتے ہیں یہ آسان راستہ ہے لیکن بلندی زیادہ ہے اور گرمیوں میں بھی برف موجود ہوتی ہے۔ لمبی ٹریکنگ کرنے والوں کا یہ پسندیدہ راستہ ہے۔
اس علاقے میں دیار، کائل اور چیڑھ کے گھنے جنگل انسانی آبادیوں سے متصل ہیں۔ ماضی میں ان جنگلات کی کٹائی کافی ہوئی ہے، پھر بھی بہت کچھ سلامت ہے۔ پانی وافر ہے اور بارشیں بھی خوب ہوتی ہیں۔ اس لیے ہر طرف ہریالی ہے۔ حالیہ برسوں کے سیلابوں نے دریا کی گزرگارہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ چند سال پہلے تک دریا جنگلوں، مرغزاروں اور کھیتوں کے بیچ آرام سے بہتا تھا اور پانی صاف شفاف ہوتا تھا۔ اب اس کی گزرگاہ میں سیلاب کی لائی ہوئی بڑی بڑی چٹانیں بکھری پڑی ہیں جن سے گدلا پانی سر ٹکراتا شور کرتا ہے۔ قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ چٹانیں سفید گرینائٹ کی ہیں اور کافی قیمتی ہیں۔ یعنی ان سے بھی فایدہ ہو سکتا ہے۔
یہاں چراگاہیں اچھی اور وسیع ہیں تاہم مقامی لوگوں کا گلہ بانی کی طرف زیادہ رجحان معلوم نہیں ہوتا، اس لیے یہ شعبہ زیادہ تر بکروال گوجروں کے ہاتھ میں ہے۔ ٹورزم کے امکانات وسیع ہیں اور کافی لوگ آتے ہیں۔ علاقہ پر امن لگتا ہے، اس لیے ٹورزم کے امکانات روشن ہیں۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ سڑک کا ہے جو شرینگل سے آگے کچی ہے۔ اوپر سے سیلابوں نے تباہی مچا رکھی ہے۔ سڑک کی حالت بہتر ہوگی تو سیاحوں کی امد مزید بڑھے گی۔
سیاحت اس علاقے میں نسبتاً نئی چیز ہے۔ اس کے معاشی فواید پر دو رائے نہیں ہو سکتی لیکن ابھی سے اس کے مضر اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ ہوٹل اور کیمپنگ سائٹ بغیر کسی منصوبہ بندی کے بن رہے ہیں۔ آخری انسانی آبادی سے میلوں اوپر تک ہوٹل بنے ہوئے ہیں اور نئے بن رہے ہیں۔ سیاح تقریباً سارے پاکستانی ہیں جن کو ماحولیاتی مسائل کا کوئی ادراک نہیں۔ کمراٹ کے مشہور آبشار کو دیکھنے کے لیے کافی چڑھائی پر پیدل چلنا پڑا۔ راستے میں کھوکے بنے ہوئے تھے جن میں چپس اور بوتلیں بک رہی تھیں۔ ہر طرف کچرا بکھرا پڑا تھا۔ آبشار کا صاف پانی سفید چٹان کی بلندی سے گر رہا تھا۔ دور سے دیکھ کر جی چاہا کہ اس کا پانی پی لوں۔ قریب پہنچا تو دیکھا درجنوں افراد کچھے باندھ کر نہا رہے ہیں اور صابن مل رہے ہیں۔ آبشار کا پانی پینے کا خواب پورا نہ ہوا تو کھوکھے سے بوتل خرید کر پیاس بجھا لی۔ واپس آتے ہوئے پھٹ پھٹ کی آواز سنی۔ دیکھا تو ایک گھومنے والا جھولا لگا ہے جس کا انجن سٹارٹ ہو رہا ہے۔ خواتین اور بچے جھولے میں بیٹھ کر خوش ہو رہے ہیں۔ یعنی یہ لوگ ہزاروں روپے خرچ کر کے یہاں اس لیے آئے تھے کہ مرد نہا سکیں اور بال بچے جھولے میں بیٹھ لیں۔ یہ ہے سیاحت کا پاکستانی تصور!
ہموار قابل کاشت زمین کافی ہے اور زرخیز لگتی ہے۔ پانی کی بھی کوئی کمی نہیں۔ آلو اور گوبھی کی فصلیں وسیع پیمانے پر کاشت ہوتی ہیں اور اچھی پیداوار دیتی ہیں۔ یہاں کی زراعت تقریباً مکمل طور پر سبزیوں کی کاشت پر منحصر ہو گئی ہے۔ روایتی فصل مکئی بہت کم کہیں دیکھی۔ آلو، گوبھی اور شلغم کی جدید طریقوں سے کاشت کر کے اچھی پیداوار لیتے ہیں۔ دو دو فصلیں ہوتی ہیں اور پیداوار پنجاب کی منڈیوں کو جاتی ہے۔ کیمیائی کھادوں اور زرعی ادویات کا استعمال وسیع پیمانے پر ہوتا ہے جس سے ماحولیاتی مسائل کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ زمین کی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ کالام سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب سے بات ہوئی تو بتاتے ہیں کہ ان کے ہاں آلو کی کاشت اب منافع بخش نہیں رہی اس لیے وہ صرف گوبھی اُگاتے ہیں۔ وجہ یہ بتائی کہ کیمیائی کھادوں پر انحصار کی وجہ سے زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے۔ اس سوال پر کہ قدرتی کھاد کیوں استعمال نہیں کرتے، وہ بتاتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت سردیاں میدانی علاقوں میں گزارنے جاتی ہے اس لیے جانور پالنے کا رواج ختم ہو رہا ہے۔ جانور نہ ہوں تو قدرتی کھاد کہاں سے آئے۔
دیر کوہستان کا گاؤں تھل گاوری لوگوں کی مرکزی آبادی ہے۔ اس آبادی بلکہ پورے کوہستان میں قابل دید کوئی عمارت ہے تو وہ تھل کی مرکزی مسجد ہے۔ مسجد کی تعمیر غالباً چند صدیاں قبل اس وقت ہوئی جب یہاں کے لوگ پہلی بار مسلمان ہوئے تھے۔ اسلام آنے کے بعد تھل کی مرکزی حیثیت کے پیش نظر یہاں کے لوگوں نے ایک بڑی مسجد تعمیر کی، جس میں غالباً عیدین اور جمعہ کے لیے پورے بالائی کوہستان کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ یہ اندازہ مسجد کی وسعت اور اس کی تعمیر کے لیے درکار افرادی قوت سے ہوتا ہے۔ ایک چھوٹے گاؤں کی آبادی کے لیے ایسی عمارت کی تعمیر بہت مشکل اور زاید از ضرورت ہوتی۔
مسجد میں کئی بار توسیع ہوئی ہے تاہم خوش قسمتی سے اس کا اصل ڈھانچہ بڑی حد تک محفوظ رکھا گیا ہے۔ یہ ڈھانچہ اب مسجد کی زمینی منزل کا اندرونی حصہ ہے۔ یہ حصہ پوری مسجد کا ایک نسبتاً چھوٹا حصہ ہے مگر زمانہ تعمیر کے لحاط سے ایک شاندار کارنامہ لگتا ہے۔ اس ڈھانچے کی خاص بات اس میں استعمال ہونے والی لکڑی کی شہتیروں، ستونوں اور چھت کی کڑیوں کا سائز ہے۔ ایک جنگلاتی علاقے میں لکڑی کا حصول تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، لیکن اتنے بڑے درختوں کو گرانا، تراشنا اور اٹھا کر عمارت میں نصب کرنا بہت مشکل کام ہوگا۔ مسجد کے قدیم حصے کی شہتیروں کی لمبائی سو فٹ تک اور ستونوں کا گھیرا (circumference) بارہ فٹ تک ہے۔ خصوصاً اس زمانے میں جب کسی قسم کی مشینیں اور الات دستیاب نہیں تھے، اس قسم کا بھاری کام قابل داد ہے۔ آلات کی قلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسجد کے قدیم حصوں میں لکڑی کی کہیں بھی رندے(plane) سے صفائی نہیں کی گئی ہے۔ یعنی ان لوگوں کے پاس کلہاڑی، تیشے (اور غالباً آری) کے سوا کوئی اور آلہ موجود نہیں تھا۔
مسجد میں لکڑی پر کندہ کاری کا کام بھی بیش قیمت ہے۔ پرانے حصے میں یہ کام روایتی داردی آرٹ کا عمدہ نمونہ ہے۔ بعد میں تعمیر کیے گئے حصوں میں کندہ کاری کے نسبتاً جدید رجحانات بھی ملتے ہیں۔ اس طرح یہ عمارت اس خطے کی تہذیب کے مختلف ادوار کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔
مسجد میں موجود ایک کتبے کے مطابق تیسری توسیع 1958 میں ہوئی تھی۔ اس وقت بھی دوسری منزل پر تعمیرات ہو رہی ہیں۔ یہ مسجد اس علاقے کے لوگوں کے مذہبی جذبے، عزم، حوصلے اور اتفاق کی زندہ و تابندہ مثال ہے۔ یہاں آنے والوں کے لیے جنگل اور پہاڑوں سے زیادہ قابل دید چیز یہ مسجد ہے۔
گاروی زبان بولنے والے لوگ دریائے پنجکوڑہ اور دریائے سوات کے بالائی علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان علاقوں کو پشتون لوگ کوہستان کہتے ہیں جب کہ چترال کے لوگ اس علاقے کو بشقار اور یہاں کے باشندوں کو بشقیریک کہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہمسائے پشتونوں سے نسلی اور لسانی طور پر بالکل الگ ہیں۔ ان کا تعلق داردی خاندان سے ہے جس میں بہت سے دوسرے گروہ جیسے سوات کے توروالی، گلگت اور انڈس ویلی میں شن، چترال میں کھو، کلاش وغیرہ نیز شمالی افغانستان کے کئی گروہ شامل ہیں۔ گاوری لوگ کسی زمانے میں پوری پنجکوڑہ وادی (جو آج کل کے دیر کے دو اضلاع پر مشتمل ہے) کے مالک تھے۔ پنجکوڑہ وادی کے علاوہ باجوڑ اور ملحقہ علاقوں میں بھی ان سے ملتے جلتے لوگ رہتے تھے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں پشتونوں کی یلغار سے یہ لوگ دریائے پنجکوڑہ کے بالائی حصے تک محدود ہو گئے۔ اس وقت دیر کوہستان سے گاوری پہاڑوں کی دوسری طرف سوات وادی کے بالائی علاقے کالام میں بھی آباد ہوچکے ہیں۔ یہ دونوں علاقے ایک آسان پہاڑی درے باڈگوئی کے ذریعے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ آج کل اس درے سے ایک سڑک گزرتی ہے جو گاڑیاں چلانے کے قابل ہے۔
گاوری لوگوں کی زبان بھی گاوری کہلاتی ہے، جسے پشتون لوگ کوہستانی 1 بھی کہتے ہیں۔ یہ انڈو آرئین زبانوں کے داردی گروہ سے تعلق رکھتی ہے اور اس گروہ کی دیگر زبانوں سے قربت رکھتی ہے۔ ثقافتی طور پر بھی یہ لوگ دیگر داردی لوگوں سے قریب ہیں۔ گزشتہ دو تین صدیوں سے ان پر پشتون اثرات کافی پڑے ہیں۔ جن علاقوں میں پشتون قبائل کا غلبہ ہو چکا ہے وہاں کے داردی اپنی زبان اور الگ تشخص سے محروم ہو کر خود کو پشتون سمجھتے ہیں۔ جن علاقوں میں ان کا لسانی اور ثقافتی تشخص برقرار ہے، وہاں بھی ان کی زبان اور ثقافت پر پشتونوں کے اثرات واضح محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ دیر کوہستان میں پشتونوں کے علاوہ گوجر لوگ بھی خاصی تعداد میں آباد ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو رہا ہے۔ موجودہ وقت دیر کوہستان میں گاوری بولنے والے سکڑ کر کلکوٹ تحصیل تک محدود ہو چکے ہیں۔
معاشی طور پر گاوری لوگ زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ سبزیوں کی کاشت سے ان کو کافی امدنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سیاحت سے بھی کسی قدر روزگار پیدا ہوتا ہے۔ لوگوں کی معاشی حالت بالعموم اچھی ہے۔ تاہم تعلیم کا رجحان عمومی طور کم اور خواتین میں بالکل نہیں ہے۔ دیر کوہستان میں تعلیمی صورت حال کالام کی نسبت مزید کمزور ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سوات کے حکمرانوں نے ریاست میں تعلیم کے فروع کے لیے کچھ کوششیں کی تھیں جب کہ دیر میں ایسی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔
اس بات کا تعین تو ممکن نہیں کہ گاوری لوگ ماضی میں کہاں تک پھیلے ہوئے تھے۔ تاہم قدیم ماخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری پنجکوڑہ وادی (دیر) کے علاوہ باجوڑ اور سوات میں گبری لوگ رہتے تھے, جن کی زبان بھی گبری کہلاتی تھی. یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کی مہمات کے سلسلے میں یونانی مورخین نے اسی علاقے میں گورایوس دریا اور گوراَئے کے ملک کا ذکر کیا ہے، اس سے پنجکوڑہ دریا اور دیر کی وادی مراد ہیں۔ اولف کیرو کے مطابق مہا بھارت میں جس گاوری کا ذکر ہے وہ بھی پنجکوڑہ دریا ہے۔ ان سب سے اکثر محقیقین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ موجودہ گاوریوں کا نام اس علاقے کے قدیم نام کی نسبت سے پڑا ہے۔ سولہویں صدی میں یوسفزئی پشتونوں کے علاقے پر قبضہ کرنے سے پہلے سوات اور باحوڑ میں دو آزاد ریاستیں ہوتی تھیں، جن کے حکمرانوں کا تعلق گبری نسل سے تھا۔ پشتون تاریخ "تواریخ حافظ رحمت خانی" کے مطابق سوات کے جہانگیری سلاطین گبری بولتے تھے اور ان کی رعایا یادری زبان۔2
بابر کے حملے کے وقت سوات اور باجوڑ کی پرانی ریاستیں قائم تھیں، اگرچہ پشتونوں کے دباؤ کی وجہ سے کمزور ہو گئی تھیں۔ بابر نے باجوڑ کے آخری مقامی حکمران حیدر علی کو قتل کرکے اس کی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ سوات کے دارالحکومت منگلور پر بھی بابر نے فوج کشی کی لیکن ان کے قلعے کو فتح نہیں کر سکا۔
اس تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بابر کے حملوں کے بعد جہانگیری اتنے کمزور ہو گئے کہ پشتوں کا مقابلہ کرنا ان کے لیے ممکن نہ رہا۔ وہ منگلور سے نکل کر پہاڑوں کے پار نہاگ درہ وادی (موجودہ اپر دیر کے واڑی قصبے کے مشرق میں) میں چلے گئےاور وہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ نسلی اور لسانی طور پر دیر کے گبریوں سے تعلق رکھتے تھے۔نہاگ درہ میں جہانگیریوں کی حکومت کچھ عرصہ جاری رہی۔ آخوند درویزہ تذکرہ میں بتاتے ہیں کہ "سلطان اویس کے بعد اس کا بیٹا قزان شاہ اس کا جانشین بنا، جس نے سوات میں حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی زمانے میں یوسفزئی لشکر میدانی علاقوں میں غوریا خِیل قبائل کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھے۔ اس سے فایدہ اٹھا کر قزان شاہ کاشغر(قشقار) گیا اور وہاں سے ایک لشکر اپنی کمک پر لے آیا۔ اس لشکر کی مدد سے اس نے سوات میں وسیع پیمانے پر حملے کیے اور پشتونوں کو بھاری نقصان پہنچایا۔ تاہم پشتون قبائل نے مجتمع ہو کر جوابی کاروائی کی اور قزان شاہ کو سوات سے نکال دیا۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد پشتونوں نے نہاگ درہ پر حملہ کیا اور قزان شاہ کو قتل کرکے اس کا قلعہ مسمار کر دیا۔" قزان شاہ کی اولاد نے مزید کچھ عرصہ یہاں حکومت کی لیکن غالبا ان کی طاقت ختم ہو چکی تھی اس لیے ان کے واقعات تاریخوں میں نہیں ملتے۔
اسی زمانے میں غیر مسلم غیر پشتون لوگ نہ صرف پوری پنجکوڑہ وادی بلکہ تالاش کے علاقے میں بھی آباد تھے۔ پشتونوں کی تالاشیوں سے جنگ و جدل کے واقعات کتابوں میں ملتے ہیں جن کے آخر میں تالاشی یہاں سے نکل کر بالائی وادیوں میں چلے گئے۔ یہاں سے پشتون قبائل رفتہ رفتہ پنجکوڑہ وادی میں آگے بڑھتے گئے۔ تاہم اکبر بادشاہ کے دور کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ علاقہ سیند (موجودہ خال) سے اوپر بدستور مقامی لوگ رہتے تھے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ 1580 کے بعد کے زمانے روشنائی/تاریکی شورشیوں کو پیچھا کرتے ہوئے اکبری فوجیں باجوڑ اور وہاں سے پنجکوڑہ وادی پہنچے۔ اکبرنامہ میں ان کی کاروائیاں گندیگار اور وہاں سے گان شال3 تک ریکارڈ کی گئی ہیں۔ شورشی گان شال کے مضبوط قلعے میں محصور ہو گئے جہاں سے ان کو نکال دیا گیا۔ ان باغیوں میں دیگر پشتوں قبائل کے علاوہ یوسفزئی بھی شامل تھے۔ ان کو یہاں سے نکالنے میں مقامی لوگوں نے مغل فوجوں کی مدد کی اور اس طرح وقتی طور پر پشتون غلبے کے خطرے کو ٹال دیا۔ پشتون حملہ اوروں کی دوسری لہر آخوند سالاک کے جہادیوں کی صورت میں آئی جن کے زیر اثر صرف علاقے میں اسلام پھیلا بلکہ دیر کوہستان کے زیریں حصوں میں پشتوں قابض ہوگئے۔ تاہم بالائی کوہستان نیز موجودہ دیر شہر اور اس کی ذیلی وادیاں بدستور مقامی گاوری لوگوں کے قبضے میں رہیں۔ دیرخاص سے گاوریوں کی بے دخلی اور یہاں اسلام کا فروع انیسویں صدی کے آغاز پر آخوند الیاس کی اولاد کے ہاتھوں ہوا، جنہوں نے یہاں دیر کی ریاست قائم کر لی۔
تاریخی طور پر گاوری لوگ ہمیشہ سے آزاد قبائل کی صورت میں رہے ہیں اور یہاں کسی ریاست کے قیام کی کوئی روایت موجود نہیں۔ تاہم پہاڑوں کے دوسری طرف چترال کی ریاست سے ان کے گہرے تعلقات رہے ہیں۔ اکبرنامہ کی شہادت کے مطابق سولہویں صدی کے اواخر میں یہاں کاشغرکا نائب حاکم موجود تھا4۔ چترال کے حکمرانوں میں خانہ جنگیاں چلتی رہتی تھیں جن کے دوران شکست کھانے والے شہزادے بشقار (دیر/سوات کوہستان) میں پناہ لیتے اور بعض اوقات یہاں سے مدد حاصل کرکے واپس آتے۔ محترم شاہ کٹور ثانی نے اپنی جلاوطنی کا بیشتر عرصہ چکیہ تن کے مقام پر گزارا۔ اس مقام پر ٹھہرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کوہستان اور چترال دونوں سے رابطہ رکھنا آسان تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت چکیہ تن پر پشتون قابض نہیں ہوئے تھے۔ بالائی چترال اور یسین کے کی ریاست کے لیے دیر کوہستان کی نسبت کالام زیادہ قریب پڑتا تھا اس لیے یہ لوگ ضرورت کے وقت کالام کا رخ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کالام میں چترالی لوگ بھی کافی تعداد میں آباد ہیں اور اب بھی کھوار زبان بولتے ہیں۔ ان علاقوں پر دیر اور سوات کی ریاستوں کا قبضہ بیسویں صدی کے وسط میں ہوا اور اس کے بعد یہاں پشتونوں کا اثر رسوخ بڑھ گیا۔ دیر کوہستان کی دو تحصیلوں میں سے ایک شرینگل میں سارے لوگ پشتو بولتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو نسلی طور پر پشتون ہیں اور باقی نسلی طور پر قدیم داردی باشندے ہیں لیکن پشتونوں میں گھل مل کر اپنا تشخص کھو بیٹھے ہیں.
دیر کوہستان میں اسلام دھیرے دھیرے پھیلا۔ اگرچہ کوہستانات میں سترہویں صدی کے اندر آخوند سالاک نام کے جنگجو مبلغ کے ہاتھوں اسلام کی تبلیغ کا آغاز ہوا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دیر شہر میں اسلام انیسویں صدی کے آغاز تک نہیں پہنچا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ جب خان قاسم نے موجودہ دیر شہر کو فتح کیا تو یہاں قدیم غیر مسلم باشندے رہتے تھے۔ ظاہر ہے جب دیر شہر کے علاقے میں لوگ مسلمان نہیں تھے تو بالائی وادیوں میں کہاں ہونگے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب دیر کے خوانین نے اپنے مرکز ببیاوڑ سے آگے بڑھ کر دیر کو فتح کیا تو ان کے ہمراہی کوہستان میں بھی پھیل گئے۔ انہی لوگوں نے گاوری لوگوں کو بالائی وادیوں میں دھکیل کر زیریں کوہستان پر قبضہ کر لیا۔ انہی لوگوں کے اثر سے گاوری لوگوں میں اسلامی اثرات پھیلے جس عمل کچھ وقت ضرور لگا ہوگا۔
کوہستان میں اسلام پھیلنے کے بعد بھی بالائی حصے کے گاوری لوگ دیر ریاست سے آزاد رہے۔ عمرا خان نے اپنے عروج کے دور میں پورے کوہستان کو اپنے زیر نگین لانے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ 1895 میں عمرا خان کے زوال کے بعد دیر کا نواب اپنی جگہ بحال ہوا تو اس نے رفتہ رفتہ پورے کوہستان پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ دوسری طرف کالام پر والی سوات کا قبضہ 1940 کی دہائی کے وسط تک ممکن نہیں ہوسکا۔ اس سے پہلے کئی سالوں تک مقامی لوگ سوات کے قبضے کی مزاحمت کرتے رہے۔ اس دوران یہاں کے لوگوں نے سوات کی بجائے چترال کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی اور یہاں سے لوگ مدد مانگنے چترال جاتے رہے5۔ ریاست چترال کے حکمران نے انگریزوں کے ذریعے والی سوات کے اقدامات کو رکوانے میں کی کوششیں کی۔ تاہم 1943 کے بعد ریاست چترال اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا تو والی سوات نے علاقے کا کنٹرول سنبھال کیا۔
ٗ1۔ پشتون لوگ اپنے قریب کی پہاڑی وادیوں کو کوہستان کہتے ہیں جس کا مطلب پہاڑی علاقہ ہوتا ہے۔ انڈس کوہستان، سوات کوہستان، دیر کوہستان اور کونڑ کا کوہستان اسی قسم کے نام ہیں۔
2۔ پشتون تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسفزئی پشتونوں کے قبضے سے پہلے سوات دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک جہانگیری سلاطین کا ملک جس کا دارالحکومت منگلور میں تھا اور دوسرا متراویوں کا علاقہ۔ یہ متراوی بھی غالباً مقامی انڈو آرئین نسل کے لوگ تھے اور اپنی الگ زبان بولتے تھے۔ جہانگری مملکت کے عوام کی زبان یادری کے بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ بھی کوئی داردی زبان تھی۔ ان دو گروہوں کے علاوہ بالائی سوات میں الگ نسلی گروہ بھی رہتے ہونگے جن کی باقیات موجودہ توروالی لوگ ہیں۔
3۔ گانشال دیر کوہستان کی ایک ذیلی وادی ہے جو اوپر جاتے ہوئے دائیں طرف پہلی وادی ہے۔ گانشال وادی دیر چترال کی مین شاہراہ پر واقع گندیگار گاؤں سے ایک آسان پہاڑی درے کے ذریعے قابل رسائی ہے۔ پرانے زمانے میں کوہستان وادی کے لیے مختصر راستہ یہی ہوگا اور مغل افواج بھی اسی راستے سے گانشال پر حملہ اور ہوئی ہونگی، کیونکہ گانشال سے پہلے گندیگار پر حملے کا تذکرہ بھی اتا ہے۔ مذکورہ وادی کے علاوہ اس خطے میں گانشال نام کے اور بھی مقامات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوہستان میں واقع گانشال قدیم مقامی لوگوں کا اہم مرکز تھا۔ چترال کے لوگ دیرشہر کے مضافات میں رہنے والے کے قدیم غیر پشتون لوگوں کو گانشالی کہتے تھے۔
4۔ پشتون تذکروں میں جس کاشغر کا ذکر ہے وہ یقیناً قشقار یعنی چترال ہے۔ جس زمانے میں پشتون لوگ دیر اور سوات میں پہنچے اس وقت چترال پر کاشغر کا قبضہ ہو چکا تھا اور پشتونوں کے لیے چترال کاشغر کا حصہ تھا۔ اس لیے وہ اس علاقے کو کاشغر کہنے لگے جو بعد میں قشقار بن گیا۔
5۔ دیر اور سوات کوہستان کے چترال کی ریاست کے ساتھ پیچیدہ قسم کے تعلقات تھے۔ یہ علاقے بیشتر اوقات کسی حد تک چترال اور یاسین کے حمکرانوں کی سیادت کو تسلیم کرتے تھے لیکن ساتھ اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ان ریاستوں کی خانہ جنگیوں میں شکست کھا کر بھاگنے والے کوہستان میں پناہ لیتے اور یہیں ان کو بعض اوقات سپورٹ بھی ملتی۔ مرزا غفران کے مطابق سوات کوہستان کے لوگوں کا تعلق مستوج/یسین کے ساتھ اور دیر کوہستان کا چترال کے ساتھ تعلق زیادہ تھا۔