Back To Main Page

چترال میں باز پروری کی روایت

میتارژاؤ شاہجہان، دنین چترال
denin

چترال میں نہایت قدیم زمانے سے بازپروری کا رواج رہاہے۔ ریاستی دورمیں یہاں کے حکمران اورشاہی خاندان کے افراد کے علاوہ اشرافیہ طبقہ اور دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے ثروت مند افراد نے باز پالنے اوربازکے ذریعے شکار کے فن کو صدیوں تک زندہ رکھے رکھا۔ ریاستی دورکے اختتام کے بعد اگرچہ اس فن کا پہلے جیسا رواج نہیں رہا، پھربھی یہاں کے چند ایک معززین نے اس قدیم رواج کو مٹنے نہیں دیا۔ اب بھی باوجود ناموافق حالات کے، چترال کے طول و عرض میں باز پالنے والے اکا دُکا نظر آتے ہیں۔

بازپروری کے فن کی رو سے شکاری پرندوں کی دواقسام بیان کی جاتی ہیں ۔ اول سیاہ چشم او دوسرا زر چشم۔ سیاہ چشم نسل کے شکاری پرندے پالنے اورسدھانے میں مشکل تصورہوتے ہیں، کیونکہ وہ جلد انسان کے ساتھ مانوس نہیں ہوتے اوراگرمانوس ہو بھی جائیں تو ان پرکلی طور پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کسی بھی وقت بھاگ اڑسکتا ہے اور پھرواپس مالک کے ہاتھ نہیں آتا۔ سیاہ چشم باز سدھانے پر شاذ و نادر ہی انسانوں کے ساتھ مانوس ہوجاتے ہیں۔ اوراگر ان کو سدھا لیا جائے تو زرچشم نسل کے بازوں سے طاقتور ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ کارآمد ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے اُن بڑے پرندوں کا شکار بھی ممکن ہوتا ہے جو زرچشم بازوں کے لیے مشکل ہوتے ہیں، جیسے لقلق، کونج، راج ہنس اور رام چکور وغیرہ۔ سیاہ چشم نسل کے بازوں میں شاہین، چرخ، شنقار(چمقار)، قیر، شکرہ (بلپھاک)، دُرومتائے، بیسرہ، عقاب اور چیل شامل ہیں۔ ان میں بعض تو قد میں بہت بڑے، بعض درمیانہ اور بعض بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس قسم کے پرندوں میں سب سے چھوٹاشکاری پرندہ لٹورا ہے جسے کھوار زبان میں "ٹیوف" کہاجاتاہے۔ ٹیوف کی ایک کمزور قسم "شین ٹھیف" کہلاتی ہے جو کیڑے مکوڑوں کا شکار کرتی ہے۔ ایک کھوارشاعر کا مصرعہ مشہورہے کہ ؂ شین ٹھیف تن گذارانوکوروئے سے کیہ حسابی۔ یعنی زندگی عشق کیے بنا بھی گذر سکتی کیونکہ شین ٹیف کا بھی گذارا ہو ہی جاتا ہے۔

مگر کہتے ہیں کہ جب کوئی ماہر فن لٹورے کو سدھاتا ہے تو وہ بھی چھوٹے پرندوں کاشکار آسانی سے کرلیتا ہے۔ اچھی تربیت سے وہ اپنے سے کئی گنا بڑے قد کے پرندے کا شکار بھی مہارت سے کرلیتا ہے۔ وہ اپنے پنجوں سے بڑے پرندوں کی آنکھیں نوچ لیتاہے، جس سے وہ اندھے ہوکرنیچے گرجاتے ہیں۔ مہتر اعلیٰحضرت شجاع الملک کے عہد حکومت میں موضع موڑدہ چترال کے دِل افروز اس فن کے امام مانے جاتے تھے، جو شاہی بازخانے کے نگران تھے۔ ان کی اس فن میں مہارت کے حوالے قصہ مشہور ہے کہ بازسدھانے میں اپنی مہارت مہترکو دکھانے کے لیے انہوں نے ایک بار چوری چھپے "شیف ٹھیف" کوپکڑکرسدھایا اور موسم بہار میں بلچ کے آبی شکارگاہ میں مہتر کے ہمراہ شکارکے دوران اس سدھائے ہوئے ’’شین ٹھیف ‘‘ سے کونج کا شکار کرایا۔ یہ دیکھ کرشجاع الملک نے میرِشکار دِل افروز کو ان کی اس فن میں مہارت پرداد دی، لیکن یہ کہتے ہوئے شیف ٹھیف کے پر نچوا دئیے کہ اس نے اپنی قد سے بڑے پرندے کاشکار کرکے اپنی حیثیت سے بڑاکام کیاہے جو فطرت کے خلاف ہے۔ بازکی دوسری قسم زرچشم کہلاتی ہے کیونکہ اس کی آنکھیں پیلی ہوتی ہیں۔ اس قسم کے باز انسان سے جلد مانوس ہو جاتے ہیں اور سدھانے میں بھی زیادہ وقت نہیں لیتے۔ یہ سیاہ چشم بازوں کی نسبت بہت وفادار اور صابر ہوتے ہیں۔ مانوس ہونے کے بعد یہ اپنی مالک کی آواز کو دور سے پہچان لیتے ہیں اور بلائے بغیر بھی اس کے پاس لوٹ کر آتے ہیں اور بلانے پر دیر نہیں لگاتے۔ اس لیے چترال میں قدیم زمانے سے زر چشم قسم کے بازپالنے کا رواج رہا ہے۔

زر چشم نسل کی بازوں کی قسمیں

زر چشم نسل کے بازکئی قسم کے ہوتے ہیں۔ تاہم چترال میں زیادہ تر دو اقسام کے پالنے کا رواج ہے۔ یعنی بڑاباز (سایورج) اور چھوٹے باز (بوؤرج)۔ بڑے باز کی مادہ سایورج اور نرکوڑو یورج کہلاتا ہے۔ چترال میں سایورج کو شکاری پرندے کی حیثیت سے خصوصی شہرت اور اہمیت حاصل ہے۔ اس کا قد نرسے بڑا ہوتا ہے اوریہ مختلف رنگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کا نرجو کوڑو یورج کہلاتا ہے، قد میں اپنے مادہ سے ذرا چھوٹا ہوتا ہے اور یہ بھی مختلف خوبصورت رنگوں میں ملتا ہے۔ اسی طرح چھوٹی نسل کے بازوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور وہ بھی مختلف رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔ بازبڑا ہو یا چھوٹا اس کے رنگوں کے لیے کھوار زبان میں ایک ہی طرح کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔

باز پالنا اور اسے سدھانا بڑے مہارت کا اور دِقت طلب کام ہے۔ اس فن کو سیکھنے میں پوری عمر لگ جاتی ہے۔ اس لیے یہ فن خاندانی ہوتا ہے۔ یہاں کے حکمران اور شرفاء بازوں کی دیکھ بال اور سدھانے کے لیے ان خاندانی پیشہ ور لوگوں کی خدمات مستقل بنیادوں پرحاصل کرتے تھے ۔ جنھیں "میرشکار" کہا جاتا تھا۔ ریاستی حکمران ایسے پیشہ ور لوگوں کو شاہی ملازمت میں لے کر انھیں اس خدمت کے عوض زمینیں بخش دیتے تھے، جونسل درنسل ان لوگوں کے پاس رہتیں۔ اس کے علاوہ جنس کی صورت میں ان کاوظیفہ بھی مقررکیاجاتا جو "روزینہ" کہلاتا تھا۔

طبقہ امراء کے جوافراد باز پالنے کے شوقین ہوتے وہ ان پیشہ ور لوگوں کی خدمات گرانقدر معاوضے پر حاصل کرتے اور ان کے نازنخرے اٹھاتے۔ پیشہ ورباز پروروں کا یہ طبقہ ریاستی دور میں حکمرانوں اور اشرافیہ طبقے کا منہ چڑھا ہونے کی وجہ سے بڑا نازک مزاج اور زود رنج گردانا جاتا۔ بازپروروں کی رہائش عموماً بازخانوں کے قریب ہوتی تاکہ وہ دِن رات اپنی بازوں کی نگرانی اورحفاظت کرسکیں۔ یہ پیشہ ور باز پرور تجربہ کار اور ماہر ہوتے اور انہیں بازوں کی اقسام، عادات، رنگ، پرواز، شکار اور خصلت سے گہری واقفیت ہوتی تھی۔ ان کی نظر میں جو باز ناقابل اعتماد ہوتے ان پر وقت ضائع کرنے کی بجائے ان کو تربیت سے قبل ہی چھوڑ دیا جاتا۔ وہ بازکے رنگ اور خدو خال کو دیکھ کر ہی اس کی صلاحیتوں کو پہچان لیتے۔ انھیں اس بات کاعلم ہوتا کہ کس باز کے لیے کس پرندے کا گوشت صحت بخش یا مضر ہے۔

قدیم چترال میں بازکی وقعت و اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ شادی بیاہ کے موقعے پر لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی والوں کو سایورج یا کوڑویورج بطورتحفہ دینے پر اس کی قدر و قیمت اچھی نسل کے گھوڑے کے برابر تصورکی جاتی۔ اس قسم کے تحفے دینے کا رواج صرف اعلیٰ طبقے تک محدود تھا۔

بازپکڑنے کے طریقے

باز کی مختلف اقسام اور ان کے مختلف عادات وخصائل کے حامل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نشو و نما اور نسل کشی کا انتظام بھی کی فطرت کے مطابق کررکھا ہے۔ بازعموماً ایسے مقامات پرگھونسلہ بناتے ہیں جہان تک عام انسان کی رسائی نہیں ہوتی۔ چھوٹی نسل کے باز کا گھونسلہ جنگل میں کہیں نظرآجائے تواس پرکڑی نظررکھی جاتی ہے تاکہ بازکے بچوں کو بڑاہوکر پرواز کے قابل ہونے سے قبل ہی پکڑا جاسکے۔ پروازکے قابل ہونے سے قبل گھونسلے سے پکڑے ہوئے بازکے بچوں کوکھوار میں "ماڑی" کہاجاتاہے۔ گھونسلے سے حاصل کیے ہوئے بازکو سدھانے کے بعد قیمتی اورنایاب تصورکیا جاتا ہے۔ بازپکڑنے کے بعد ایک سال تک "بجگی" کہلاتاہے، جوغالباً "بچگی" یعنی کم سنی کی بگڑی شکل ہے۔ جب باز ایک سال کی عمرکو پہنچ جائے تو اس کے پر جھڑ جاتے ہیں۔ اس عمل کو"کِریز" کہا جاتا ہے۔ کریز کے مرحلے سے گذرنے کے بعد بازکی عادتیں بڑی حد تک تبدیل ہو جاتی ہیں اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ تجربہ کارہو جاتا ہے۔ کِریزکے مرحلے کے بعد پکڑے ہوئے بازکو سدھانا مشکل تصور کیا جاتا ہے۔

کم عمری میں پکڑے ہوئے بازکو سال پورا ہونے پر کِریز کے عمل سے گذارنے کے لیے ایک صاف ستھرے، محفوظ اور تاریک کمرے میں رکھ کر مخصوص خوراک اور ادویات کھلائی جاتی ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد اس کے پرمکمل طور پر جھڑ کر ان کی جگہہ نئے بال وپر نکل آتے ہیںاور وہ پھر سے شکار کے قابل ہوجاتا ہے۔ اس طرح کِریز پر رکھے جانے والے باز کو "خانہ کِریز" کہا جاتا ہے یعنی انسان کے ہاتھوں کِریز کے عمل سے گذرا ہوا۔ اس عمل سے گذرنے کے بعد باز کے پر پہلے کی طرح خوبصورت، رنگدار اور نرم نہیں رہتے بلکہ قدرے کھردرے اور رنگ میں مٹیالے یاکلوٹے ہوجاتے ہیں۔

گھونسلے سے بازکے بچے حاصل کرنے کے علاوہ باز پکڑنے کے کچھ دوسرے طریقے بھی چترال میں رائج ہیں جوحسبِ ذیل ہیں:

۱۔ خفس دُور یا قفس دُور

اس طریقے سے بازپکڑنے کے لیے سرکنڈوں سے بنے ایک بڑے پنجرے میں چڑیوں کو بند کرکے اس کے اُوپر درخت کی نرم شاخوں سے ایک اور کھلا پنجرہ بنایا جاتا ہے۔ اوپر والے پنجرے کی لکڑیوں کے درمیان موٹے اورمضبوط دھاگے باندھ کر اُ ن پرگھوڑے کے دُم اورایال کے بالوں سے بنے پھندے لگائے جاتے ہیں۔ باز چڑیوں کو پکڑنے کے لیے پنجرے پر آ بیٹھتا ہے تو اس کا پنجہ پھندے میں آ جاتا ہے اور وہ پھنس جاتا ہے۔ باریک جال کے نچلے پنجرے کو جس میں چڑیاں رکھی جاتی ہیں، خفس دوریاقفس دور کہا جاتاہے۔اوپررکھے ہوئے پنجرے کو "اونگوڑونو"۔ دام میں پھنسنے کے بعد باز کو بڑی احتیاط سے قابو میں کیا جاتا ہے۔ اس کے پروں کو اوپر سے جوڑ کر مٹھی میں اس طرح پکڑا جاتا ہے کہ پر کٹ کر بدنما نہ ہو جائیں۔ باز پر ہاتھ کی اس گرفت کو"موُ شٹاک" یعنی مٹھی میں بند کرنا کہا جاتا ہے۔ باز کو قابو کرنے کے بعد فوری طور پر باریک دھاگے سے اس کی آنکھوں کے پپوٹے آپس میں ٹانک دیے جاتے ہیں۔ جسے "غیچھان ٹک دِک" یعنی آنکھوں کو ٹانکنا کہا جاتا ہے۔ اس عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ باز انسانی آوازوں سے مانوس ہونے تک اردگرد کے مناظر نہ دیکھ سکے۔ کیونکہ باز ابتدائی طور پر لوگوں کو دیکھ کر ڈرتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ وہ بدک کر اُڑنے کی کوشش میں اپنے پروں کو نقصان نہ پہنچا دے۔

۲۔ خادہ (پھندہ )

بازکی ایک دلچسپ اور عجیب عادت یہ بھی ہے کہ وہ عموماً چارہفتوں تک رات کے وقت کسی ایک درخت پر بسیرا کرتا ہے۔ کبھی کبھی اس بسیرے کی مدت ڈھائی مہینے تک بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بازکی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی درخت پرچالیس دِن تک بسیرا کر لے تو اس دوران بیس دِن تک ایک سمت منہ کرکے بیٹھ جاتاہے اوربیس دِن دوسری طرف۔ باز کی اس عادت سے بازگیر فائدہ اٹھا کراسی درخت پرسے اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھکانہ ڈالنے کی اس عادت کوکھوارمیں "تھینک بِک" کہاجاتاہے۔ رات گئے جب بازسوجاتا ہے توبازگیر درخت کے نیچے تیزروشنی جلاتے ہیں۔ اس تیز روشنی کو دیکھ کربازکی آنکھیں چُندھیا جاتی ہیں اوروہ کچھ دیکھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس مسحورشدہ بازکو " آتشی "کہاجاتاہے۔ باز کو پکڑنے کے لیے لمبی لکڑی کے سِرے پر پھندہ لگا کر پھندے کے سِرے پر سفید روئی لپیٹی جاتی ہے۔ جب آتشی ہونے کے بعد باز جاگ کر سر اٹھاتا ہے تو لمبے ڈنڈے کے سرے پرلگا پھندا بڑی احتیاط سے باز کی گردن میں ڈالا جاتا ہے۔ اُس وقت پھندے پر لپٹی سفید روئی پھندے کو صحیح مقام تک پینچانے میں مدد دیتی ہے کیونکہ یہ اندھیرے پیں نظر آتی ہے۔ جب سفید روئی بازکے سرکے اوپر پہنچ جاتی تو پھندا باز کے گلے میں اٹکا کر کھینچا جاتا ہے اور باز کی مزاحمت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ بڑی مہارت سے نپے تلے انداز سے اسے کھینچ کر نیچے اتارا جاتا ہے۔ پھر احتیاط سے مٹھی میں پکڑ کر آنکھوں کے پپوٹے ٹانک دیے جاتے ہیں۔ باز پکڑنے میں استعمال کیا جانے والا لکڑی کا ڈنڈا کھوار زبان میں "خادہ"، گھوڑے کے بالوں سے بنے پھندے کو"غیچھوک" اور اُس پرلگائی جانے والی روئی کو"قراؤل" کہا جاتا ہے۔

۳۔ یورج کیت

یورج کیت مقامی اصطلاح میں اس کٹیا کوکہا جاتا ہے جوپہاڑوں میں کسی نمایاں مقام پر شہباز، قیر، شنقار، جرُہ اور شاہین جیسے بڑے اور قد آور قسم کے شکاری پرندے پکڑنے کے لیے تعمیرکیے جاتے تھے۔ اس طریقہ کار کے تحت گھر میں پالے ہوئے چکور کے پاؤں سے ڈوری باندھ کر اسے کٹیا کی چھت پر موجود "کوماڑ" یعنی سوراخ سے اوپر پہنچا کر چھت پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ بازگیر نیچے کٹیا میں خاموش بیٹھ کر ڈوری کا سرا تھامے چکور کی آوازوں پرکان دھرے رہتا ہے۔ چکورجب دور سے کسی بڑے شکاری جانورکو اُڑتے دیکھتا ہے تو چیخنے لگتا ہے۔ ہر قسم کے بازوں کے لیے اس کی آواز مختلف ہوتی ہے۔ جس سے بازگیر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کونسا شکاری پرندہ چکور کے اردگرد منڈلا رہا ہے۔ شکاری پرندہ چکورکو دیکھتے ہی اس پر جھپٹ پڑتا ہے اور بڑے زور سے اسے اپنے پنجوں میں دبوچ لیتا ہے۔ اندر بیٹھا باز گیر شکاری پرندے کو نظر سے اوجھل، اسے اپنے قابو میں کرنے کی تدبیر کر رہا ہوتا ہے۔ وہ چکور کی ٹانگوں سے باندھی ڈوری کو آہستہ آہستہ سوراخ سے اندرکی کھینچتا ہے۔ جب شکاری پرندہ بے خبری میں چکور کے ساتھ کھسکتے کھسکتے سوراخ کے اُوپرپہنچ جاتا ہیے، تب بازگیر نہایت احتیاط سے شکاری پرندے کی ٹانگیں بائیں ہاتھ سے دبوچ لیتا ہے اور دائیں ہاتھ سوراخ سے باہر نکال کر اس کو قابو کر کے سر کے بل سوراخ کے اندر کھینچ لیتا ہے۔ باز کو پکڑنے کے بعد فوری طور پر اس آنکھوں کو ٹانک دیا جاتا ہے۔ جس کٹیا میں بیٹھ کر شکاری پرندہ پکڑا جاتا ہے اس کو "یورج کیتو کوٹو " یعنی باز پکڑنے کی جھونپڑی اور چھت کے سوراخ سے ہاتھ نکال کر شکاری پرندے کی ٹانگوں کو گرفت میں لینے کے عمل کو "جوستان گنیک" کہاجاتاہے۔

بازپکڑنے کی خوشی کے گیت

جب کوئی بازگیر باز پکڑ کر واپس گاؤں آتے ہوئے کسی آبادی کے نزدیک پہنچتا تو اونچی آوازمیں ایک مخصوص گیت گاتا جو"شودونگ" کہلاتاہے۔ بازگیر کے اس طرح اونچی آواز میں شودونگ گانے سے لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ فلان بازگیر نے باز پکڑا ہے۔ یوں لوگ اسے مبارکباد دینے آ جاتے، بازوں کے شوقین باز دیکھنے پہنچ جاتے اور اس طرح بازگیر کی خوشیوں میں شریک ہوتے۔ بازگیراس موقع پر حسبِ استطاعت مبارکبادکے لیے آنے والوں کی خاطر مدارت کرتا۔

باز سدھانے کے روایتی طریقے

بازکوپکڑنے کے بعد اسے سدھانے کے سلسلے بنیادی کام اسے انسانی آوازوں سے مانوس کرنا ہوتا ہے۔ چند دِنوں تک باز پرور دائیں ہاتھ پر "راوز" ہرن (غزالِ مُشک) کی کھال کا دستانہ چڑھا کربازکو اُس پر بٹھاتا ہے۔ اس دستانے کو کھوار میں "بہلہ" کہا جاتا ہے۔ چند دِنوں کے بعد جب باز انسانی آوازوں، شور و غل اور ہاتھ پربیٹھنے سے مانوس ہوجاتا ہے تو اس کی ٹانکی ہوئی آنکھوں کوکھول دیا جاتا ہے اورباز کے سرپرچمڑے کی ٹوپی چڑھائی جاتی ہے۔ یہ ٹوپی بازکے سرکے گرد بالکل چپک جاتی ہے۔ اس ٹوپی کو"شیت کھوئی" یعنی بند یا بے سوراخ ٹوپی کہا جاتا ہے۔

ہفتہ دس دِن بعد اس ٹوپی کواتار کر باز کے سر پرایک آدھ کھلی ٹوپی پہنائی جاتی ہے جس سے باز اِردگرد کے ماحول کو دیکھنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ انسانوں سے مانوس ہونے لگتاہے۔ اس آدھ کھلی ٹوپی کو "ژینگ کھوئی" یعنی سوراخ والی ٹوپی کہا جاتا ہے۔ جب باز مکمل طور پرگرد و پیش سے مانوس ہو جاتا ہے تو یہ ٹوپی بھی اتار دی جاتی ہے۔ اب باز کو بہلہ چڑھے دائیں ہاتھ پر بٹھا کر اس کے پاؤں پر بندھے چرمی فیتوں کو انگوٹھے اور شھادت کی اُنگلی کے درمیان مضبوطی سے پکڑا جاتا ہے تاکہ کسی کو دیکھ خوفزدہ ہو کر یا بھڑکنے کی صورت میں وہ ہاتھ سے نکل کر اُڑ نہ جائے۔ بازکوہاتھ میں آسودگی سے رکھنا بہت اہم ہوتا ہے۔ اس لیے بہلہ کی نرمی اور صفائی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ بازکے پاؤں میں باندھے جانے والے چرمی فیتوں کو"پَوبند" کہاجاتاہے جو "پابند" کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ پوبند کے رنگ کا باز کے پاؤں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ سرخ رنگ کے پَوبند استعمال کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس بات کا شدید اندیشہ ہوتا ہے کہ سرخ پَوبند گوشت سمجھ کر بڑے شکاری پرندے اس پر حملہ نہ کردیں۔ جب باز ہاتھ پر بیٹھنے اور ماحو ل سے مانوس ہوجائے اور بہلہ پر رکھی ہوئے گوشت کو بلاخوف نوچنے لگ جائے تو پھراسے "ببولی" دی جاتی ہے۔ ببولی اس زندہ پرندے کو کہتے ہیں جس کے پر جگہہ جگہہ سے کاٹ کر باز کے سامنے ڈال دیا جائے۔ تاکہ وہ پوری طرح اُڑ نہ سکے۔ بَبولی کے پرندے کے ایک پاؤں میں ڈوری باندھ کر اسے اڑا یا جاتا ہے اور اس کے پیچھے زیر تربیت باز کو چھوڑ ا جاتا ہے۔ باز پرندے کو پکڑ کر اس کا سر نوچنے لگتا ہے۔ باز کے اس فعل کو کھوار زبان میں "کَھلاماز" کہا جاتا ہے، جو غالباً "اکل مغز" کی بگڑی صورت ہے، یعنی مغز کھانا۔ اس طرح کئی بار باز کو بَبوُلی دینے کے بعد جب وہ شکارکر کے واپس اپنے مالک کے پاس لوٹ آنا سیکھ جاتا ہے، تب اس کی تربیت مکمل سمجھی جاتی ہے۔ جب نیا تربیت یافتہ باز بار بار شکار پکڑ کر واپس اپنے مالک کے ہاتھ پربیٹھنے لگے تو وہ "دست رو" یعنی مکمل تربیت یافتہ کہلاتا ہے۔ بازپرور باز کو واپس بلانے کے لیے جو الفاظ یا طریقہ استعمال کرتا ہے اسے "ژیئک" کہاجاتاہے۔

اگر باز کی تربیت درست طریقے سے نہ کی گئی ہو تو وہ بعض اوقات شکار کو پنجوں میں لے کر اڑ جاتا ہے، اور پھر بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ ایسی عادات والے باز کو "وارغان اَلاک" یعنی شکار لے بھاگنے والا کہا جاتا ہے۔ شکارکرتے وقت باز کو کسی شکار پر توازن سے چھوڑنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے باز کے گلے میں ایک چرمی گلو بند ڈال کر لٹکایا جاتا ہے جسے"جاغوُ لی" کہا جاتا ہے۔ جب باز پرور باز کو شکار پر چھوڑنے کو ہوتا ہے، تو جاغولی کو قدرے کس کے انگلیوں میں دباتا ہے، جس سے باز ذہنی طور پر شکار پر جھپٹنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اگر اچانک شکار سامنے آنے پر باز کو اس پر چھوڑ دیا جائے تو ہاتھ کے زور دار جھٹکے سے باز کی کمر کے ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جس سے باز ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہوجاتا ہے۔

بازکی کو لاحق ہونے والی بیماریاں

بازکی صحت اور تندرستی کو جانچنے کے لیے باز پرور افراد عموماً باز کی بیٹ پر نظرر کھتے ہیں۔ باز کی بیٹ کو"پھیخال" کہاجاتاہے۔ بیٹ اگر زیادہ سفید یا سیاہی مائل ہو تو باز کو تندرست نہیں سمجھا جاتا۔ درمیانی رنگ کے بیٹ کو صحت مندی کی علامت تصورکیا جاتا ہے۔ عموماً ٹھنڈا گوشت کھانے سے باز بیمارپڑ جاتا ہے۔ اس لیے باز پرورکی کوشش ہوتی ہے کہ باز کو تازہ اورگرم گوشت کھلایا جائے۔ اگرکسی وجہ شکار کا تازہ گوشت میسر نہ آسکے تو باز کو باسی گوشت گرم پانی میں ڈال کر نیم گرم کرکے کھلایا جاتا ہے۔

بعض اوقات زیادہ بھوکا رہنے کی بناء پر باز چوہوں اور مینڈک وغیرہ کا شکار بھی کرنے لگتا ہے۔ ایسے باز کو "بازِ رکیک" یعنی بری عادتوں والا باز کہا جاتا ہے۔ بعض اوقات ا س طرح کے جانوروں کے شکار کرنے والا باز بیمار پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں باز کاعلاج مخصوص دواؤں سے کیا جاتا ہے۔ جس میں "غنج" اور "پرُعو" (پرَمہرہ) کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ غنج اس دوا کو کہا جاتا ہے جو روئی یا نرم گولے کے ساتھ باز کو کھلایا جائے۔ اس طریقہ علاج سے باز لقمے کو اُ گل دیتا ہے یا پھر بیٹ کے ساتھ خارج کردیتا ہے اور یوں اس کے پیٹ میں موجود فاسد مادہ خارج ہوجاتا ہے۔ پرعو(پرَمہرہ ) کے ذریعے علاج کا طریقہ اس طرح ہوتا ہے کہ کسی پرندے کا گوشت بال وپر سمیت باز کو کھلایا جائے۔ جس سے باز کے پیٹ کا فاسد مادہ منجھ جاتا ہے اور وہ تندرست ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات جلاب آور دوا باز کو کھلائی جاتی ہے اوربعض اوقات گوشت پانی میں بھگو کر دیا جاتا ہے، جسے کھوار زبان میں "اُوغاتریچی پوُ شور" یعنی آبدارگوشت کہاجاتاہے۔ بعض مخصوص حالات میں گوشت کو باریک کپڑے میں نچوڑ کربازکو کھلایا جاتا ہے جسے کھوار زبان میں"چھوک پوُ شور کہاجاتاہے۔

بازوں کے نام

چترال میں بڑی اور چھوٹی دونوں قسم کے بازوں کے رنگوں کے اعتبار مختلف نام مستعمل ہیں۔ جن میں دینار، تیغون، شاڑائی،شورانی، ڑائی، غراذی وغیرہ شامل ہیں۔ دینار کا رنگ تیغوں سے قدرے مختلف اور خوبصورت ہوتا ہے تاہم تیغون کا رنگ بالکل سفید ہوتا ہے۔ دینار اور تیغوں دونوں بہت زبردست شکاری پرندے تصورکیے جاتے ہیں۔ لیکن دینارکی نسبت تیغون زیادہ دلیر اور طاقتور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس نسل کا بازاپنے بچوں کو چیونٹیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کسی ایسے درخت پرگھونسلہ بناتا ہے جو کسی تالاب کے اندر یا دلدلی زمین پرکھڑا ہو۔ تیغون اور دینار کی قسم کے بازوں کے بارے میں مشہور ہے کہ جب یہ بچے ذرا بڑے ہو جاتے ہیں اور گھونسلے کے کنارے سے نیچے پانی میں اپناعکس دیکھتے ہیں تو اسے اپنا ہم شکل پرندہ جان کر ان کے پاس جانے کی کوشش میں پانی میں گرکر مر جاتے ہیں۔ اس لیے اس قسم اور رنگ کے باز بڑے قیمتی اور نایاب تصور کیے جاتے ہیں۔

چترال میں بازپروری کی تاریخ

چترال میں بازپروری کی تاریخ پرنظردوڑائی جائے تومعلوم ہوتاہے کہ یہاں یہ مشعلہ بہت قدیم زمانے سے رائج رہا ہے۔ منگول قبائل میں باز پالنے کا رواج ہمیشہ رہا ہے۔ چونکہ چترال پر منگولوں کے براہ راست اور بالواسطہ اثرات رہے ہیں اس لیے گمان کیا جاسکتا ہے کہ باز پروری کا فن چترال میں منگولوں کے ذریعے آیا۔ رئیس چترال کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے باز پروری کی سرپرستی کی۔ چونکہ اس خاندان کا تعلق وسط ایشیا سے تھا اس لیے باز پروری میں ان کی دلچسپی فطری تھی۔ کٹور حکمرانوں کے اقتدارکے آنے کے بعد اس شغل نے مزید ترقی کی اور پورے اشرافیہ طبقے نے باز پروری کا شغل اپنا لیا۔ یوں یہ شغل چترالی ثقافت کا لازمی حصہ بن گیا۔ باز کا شکار مہتران چترال کے روزانہ معمولات میں شامل ہوا کرتا تھا۔ مہتر امان املک آخری عمر تک باقاعدگی سے شکار پر جایا کرتے۔ مہتراعلیٰحضرت شجاع الملک کے عہد میں شاہی باز خانہ قائم کیا گیا جس کا باقاعدہ تربیت یافتہ عملہ ہوا کرتا تھا۔ موڑدہ چترال کے غازی صوبیدار اس محکمے کے سربراہ یعنی "میرشکار" تھے۔ ریاستی دور میں چترال میں بازپروری کا شغل ترقی اور زوروں پرتھا۔ لیکن قیام پاکستان اور چترال میں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے قیام کے بعد بندوق سے شکار کھیلنے پر پابندی کے ساتھ ساتھ باز پروری کے مشغلے پر بھی قدغن لگا دیا گیا اور یوں چترال کی قدیم ثقافت کا یہ پہلو زوال کی زد میں آ گیا ۔

اب چترال ٹاؤں میں گنتی کے چند ایک متمول گھرانوں کے افراد نے اس شغل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے اس قدیم فن کو اپنے مالی بوجھ کے باوجود، ثقافت پسندی کے کے سبب زندہ رکھا ہوا ہے۔ اور ناموافق حالات کے باوجود اس قدیم ثقافتی ورثے کی حفاظت پر کمر بستہ نظرآتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر ان کی حوصلہ افزائی اورسرپستی کی طرگ کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ حالانکہ قدیم رسم و رواج اور ثقافت کا تحفظ حکومت ذمہ داری ہے۔ اس کی ضمانت اقوام عالم کی بین الاقوامی انجمن یو این او کے چارٹر میںبھی دی گئی ہے۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com