مرحوم گل مراد خان حسرت علاقہ بیار(تحصیل مستوج، ضلع اپر چترال) کی تفصیلی تاریخ لکھنا چاہتے تھے، جس میں علاقے کے لوگوں کی نسلیات پر تحقیق بھی ہونی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے علاقے میں رہنے والے قوموں کی ایک فہرست بنا کر مجھے بھیجی تھی تاکہ میں اس پر کچھ اضافہ کر سکوں۔ میں نے کوہ (زیریں بیار) کے چند کم معروف قبیلوں کے ناموں کا اضافہ کر کے فہرست انہیں واپس کی تھی کہ اس دوران وہ بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوا۔ اس فہرست کی جو نقل میرے پاس محفوط ہے، اسی کو یہاں پر شائع کیا جا رہا ہے، تاکہ آئیندہ اگر کوئی اس موضوع پر کام کرنا چاہے تو اس کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔ اس موضوع پر تحقیق علاقے کی قدیم تاریخ کی گمشدہ کڑیوں کو ملانے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ فہرست یقیناً مکمل نہیں اور کافی سارے نام اور بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں مدد کر سکیں تو شکریے کے ساتھ قبول کی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس فہرست میں صرف ان گروہوں کے نام شامل ہیں جن کی قابل ذکر تعداد تحصیل مستوج میں آباد ہے۔
یہاں پر ضروری ہوگا کہ چترال کے معاشرے میں "قوم" کے تصور پر کچھ بات کی جائے۔
ہزاروں سال سے ارد گرد سے چھوٹے گروہوں اور افراد چترال کی وادیوں کو نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر جنوب سے آنے والے انڈو آرئین نسل کے لوگ تھے، تاہم شمال سے ترک اور تاجک نیز جنوب سے پشتون نسل کے لوگ بھی یہاں آکر بس چکے ہیں۔ ان نقل مکانیوں کے سبب چترالی لوگ انتہائی متنوع نسلی شناخت کے حامل ہیں۔ یہاں کوئی چھوٹا سے چھوٹا گاؤں بھی ایسا نہیں جہاں ایک ہی شناخت کے لوگ رہتے ہوں۔ اس کے علاوہ مخصوص تاریخی عوامل کے سبب چترال کا معاشرہ بڑی حد تک طبقاتی رہا ہے۔ ان طبقات کی سیاسی اور معاشی بنیادیں ہوتی تھیں۔ ایک شخص کا سماجی مرتبہ اس کے پیدائش کے وقت طے ہوتا تھا تاہم وہ قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر اس میں بہتری بھی لا سکتا تھا۔ چنانچہ طبقاتی ضرورت بھی گروہوں کو اپنی الگ شناخت برقرار رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت چھوٹے گروہ بھی اپنے آپ کو ایک الگ "قوم" سمجھتے ہیں اور اپنے نام و نسب کی حفاطت کرتے ہیں۔
اس فہرست میں ان قوموں کی طبقاتی درجہ بندی کا کوئی حوالہ نہیں، کیونکہ آج کل کے بدلتے سماجی منظر نامے میں طبقاتی تقسیم کے حوالے نہ صرف غیر ضروری ہوچکے ہیں بلکہ ان کا ذکر تلخیوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ تاہم اس بارے میں جاننے کے خواہشمندوں کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (ممتاز حسین)
Tribes of the Hindoo Koosh
Notes on Chitral
Military Report on Chitral-1903
قدیم قوم ہے۔ بیار میں اس قوم کی آبادی ڑاسپور اور زئیت میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ موڑکھو میں بھی رہتے ہیں۔
یہ قدیم لوگ ہیں جو بونی میں آباد ہیں۔
یہ کافی پرانے لوگ ہیں اور ریشن اور چرون میں رہتے ہیں۔
یہ قدیم لوگ ہیں جن کے کچھ گھرانے یارخون کے دیہات استج، خرزگ اور دیزگ میں ہیں۔
یہ خوشوقت کے بیٹے امیرالملک المعروف بروش کی اولاد ہیں۔ بروش کی اولاد پنیال(پیاڑ) کے حکمران رہے ہیں اور وہیں رہتے ہیں۔ بیار میں ان کے چند گھرانے ریشن اور چنار میں آباد ہیں۔
یہ قدیم قوم ہے۔ رئیسہ دور حکومت میں ان کے کچھ گھرانے سنوغر میں آباد تھے۔ سیاہ گوش زوندرے کے بیٹے سلطان شاہ اور ان کے درمیان کسی بات پر دشمنی ہو گئی۔ ایک دن کسی تقریب کے سلسلے میں ان کے مرد و زن ایک ہی گھر میں جمع تھے تو سلطان شاہ اپنے جتھے کو لے کر ان پر حملہ آور ہوا۔ اس حملے میں صرف ایک شخص بچ گیا۔ اس کی نسل سے چند گھرانے سرغوز میں موجود ہیں۔
روایات کے مطابق قدیم زمانے میں چلاس سے دو بھائی چاق اور ماہ چاق(چوک مچوک) ہجرت کرکے چترال کی طرف آئے۔ ان میں سے چوک عشریت اور مچوک لاسپور میں آباد ہوا۔ لاسپور میں مچوک کی اولاد کو بوژوکے کہا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت سور لاسپور اور بالیم میں رہتی ہے۔ ان کے چند گھرانے پرواک میں بھی آباد ہیں۔
اس نام کے چند گھرانے پترانگاز یارخون میں آباد ہیں۔ ان کا دعوےٰ ہے کہ وہ تریچ سے آئے اور ماژے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ غالباً ماژے بگڑ کر بنجے بن گیا ہے۔
بورے قدیم لوگ ہیں جو یارخون میں پاور اور چند دوسرے مقامات پر رہتے ہیں۔
تاریخ چترال(غلام مرتضے) کے مطابق "محمد بیگ کی اولاد کے درمیان ابتدائی علاقائی تقسیم میں خوش آمد کو مستوج کا علاقہ ملا تھا۔ کچھ عرصہ بعد رئیس شاہ محمود نے حملہ کرکے دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو اس معرکے میں خوش آمد مقتول ہوئے۔ رئیسوں کے چترال پر قبضے کے بعد ان کا بیٹا شاہ جہان المعروف ڈوڈول یارکند چلا گیا۔ سنگین علی ثانی نے رئیس کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا تو شاہجہان واپس آیا اور کچھ عرصہ بعد وہ وفات پا گئے تو شاہ فرامرد نے یسین سے آکر اس کی نو عمر اولاد کی سرپرستی کی۔" لیکن دیگر روایات (خصوصاً جو یسین میں مشہور ہیں) سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ جہان یارقند سے واپسی کے بعد نہ تو مستوج واپس آیا اور نہ جلد فوت ہوا، بلکہ وہ یسین میں مقیم رہا۔ شاہ خیر اللہ کے دور میں وہ یسین میں ان کا نائب تھا۔ خیر اللہ کے قتل کے بعد شاہ پادشاہ خوشوقتیہ جلاوطنی سے واپس آیا تو سیاہ گوش اور یسین کے ایک آدمی کو بھیج کر شاہ جہاں کو قتل کرا دیا۔ اس کے بعد شاہ جہان کی اولاد بیار منتقل ہوئی جہاں ریشون، زئیت، چرون، جنالکوچ اور چرون اویر میں ان کی کچھ آبائی زمینات ان کو واپس مل گئیں۔ آج کل یہ انہی دیہات میں رہتے ہیں۔
خوش وقت کے دو بیٹے امیر الملک اور شاہ عالم تھے۔ امیر الملک کی اولاد بروشے کہلائی جب کہ شاہ عالم کی اولاد خوش وقت ہی سے منسوب رہی۔ یہ خاندان طویل عرصے تک بیار اور یاسین کا حکمران رہا اور ان کے دور کو خوشوقتے مہتری کہتے ہیں۔ خوشوقتے سلسلے میں شاہ فرامرد، ملک امان، شاہ خیراللہ، سلیمان شاہ اور گوہر آمان مشہور حکمران گزرے ہیں۔ خوش وقت حکمرانوں میں سے سلیمان شاہ اور گوہر امان نے سکھوں اور ڈوگروں کے ساتھ گلگت کے لیے طویل جنگیں لڑیں اور کافی عرصہ یہ علاقہ ان کے زیر اقتدار رہا۔ ان میں سے فرامرد اور خیر اللہ نے زیریں چترال کے علاقوں پر بھی حکومت کی۔ یہ حکمران یسین اور مستوج دونوں مقامات کو دارالحکومت کے طور پر استعمال کرتے تھے، لیکن ان کی توجہ زیادہ تر شندور پار کے علاقوں پر رہی۔ اس وجہ سے ان کی اصل آبادی شندور پار کے علاقوں میں ہے اور بیار میں ان کی آبادی بہت کم ہے۔ یہاں کچھ خوشوقتے گھرانے کھوݱ، چپاڑی، چوئنج، مستوج، بونی اور ریشون میں آباد ہیں۔
اس قوم کے لوگ چوئینج، چپاڑی، دیو سیر، ݱوپو اور گازین میں رہتے ہیں۔
سیرنگے: سیرنگ اول سے یہ سلسلہ شروغ ہوتا ہےجو لگ بھگ سترہویں صدی کے وسط میں باہر سے آکر سنوغر میں آباد ہوا۔ اب تک اس کی بارہ پشتیں نکلی ہیں۔ سیرنگے میں ایک شخص شاہ قاسم یارخون کا حاکم تھا جس کی نسل کو قاسمے کہتے ہیں۔ سیرنگے لعل آباد، بیرزوز، بریپ، چوئنج، مستوج، سنوغر، پرواک، میراگرام، اوی اور بونی میں آباد ہیں۔ بیار سے باہر صرف رائین اور خاص چترال میں ان کے چند گھرانے ہیں۔
شاگوشے: زوندرے کی دوسری شاخ شاگوشے ہے جو سیاہ گوش کی نسل سے ہے۔ سیاہ گوش سیرنگ ثانی کا سوتیلا بیٹا ہونے کی وجہ سے اس خاندان کا حصہ بنا۔ 1700 ء کے بعد رئیس اور کٹور اول کے درمیان جو جنگ برپا ہوئی اس میں سیاہ گوش نے کٹور کا ساتھ دیا اور کٹور کی فتح کی صورت میں جائیداد اور مراعات کا حقدارٹھہرا۔ سیاہ گوش کے پانچ بیٹے قاسم، صالح، سلطان شاہ، رحیم بیگ اور حکیم بیگ تھے۔ بیار میں اول الذکر تین بیٹوں کی اولاد بریپ، چوئینج، پاسوم، پرکوسپ، چنار، مستوج، سرغوز، سنوغر، پرواک، میراگرام، اوی اور بونی میں رہتی ہے۔ ۔ بیار سے باہر ان کی آبادی بہت کم ہے۔ کچھ گھرانے یسین اور زیریں چترال میں برنس میں آباد ہیں۔ رحیم بیگ اور حکیم بیگ کی ساری اولاد آیون میں آباد ہے
زوندرے یارخون: یہ زوندرے کی ایک الگ شاخ ہے جو یارخون کے میراگرام، ایمیت، پردان، دیوسیر اور پاور میں آباد ہیں۔
زوندرے لاسپور: یہ سیرنگ اول کے بھائی سرونگ کی اولاد بتائے جاتے ہیں جو بروک رمان اور بالیم میں آباد ہیں۔
زوندرے ریشون: تاریخ چترال (غلام مرتضے) کے مطابق ریشون کے زوندرے سوملک ثانی بن سیرنگ (غالباً سیرنگ اول) کی اولاد ہیں۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ سیرانگ اول کے دو بیٹے تھے ایک تو راجہ بیگ اور دوسرا (مذکورہ تاریخ کے مطابق) سوملک ثانی۔ ریشون میں دیگر دو خاندان ژوڑیاندور اور بورخوشاندور میں رہتے ہیں جن کا تعلق زوندرے قوم سے بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شیرے زوندرے کوراغ میں بھی آباد ہیں۔
زوندرے چرون: یہ سوملک نام کے کسی حکمران (غالباً سوملک ثانی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے) کی اولاد ہیں جو موڑکھو میں رہتا تھا۔ اس نے اس بیٹے کو چرون میں بسایا تھا۔ مقامی طور پر قدیم لوگ ہیں اور اس گاؤں میں بومکی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بیار میں سادات کی مندرجہ ذیل شاخیں آباد ہیں:
سادات سنوغر: یہ شاہ محمد رضا ولی کی اولاد ہیں جو سترہویں صدی کے دوران سنوغر میں آباد ہوا تھا۔ اس کی اولاد زیئت، کوراغ، بونی، اوی، پرواک، سنوغر، سرغوز، مستوج، ہرچین، پرکوسپ، چوئنج، کارگین، کھوݱ، بریپ، پھݰک، بانگ، پترا نگاز، اور ݰوئست میں آباد ہیں۔ تعداد اور اثر و رسوخ کے لحاط سے یہ بیار کی بڑی قوم ہے۔
سادات ریچ: یہ شاہ محمد وصی کی اولاد ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اور شاہ رضا ولی ایک ساتھ آئے تھے۔ ان کا اصل وطن ریچ کی وادی ہے۔ بیار میں یہ لوگ کوراغ، چرون، بونی، مستوج، چوئنج، چپاڑی، بریپ، بانگ، میراگرام اور پردان میں رہتے ہیں۔
سادات حسن آباد: یہ پیر سید غلام علی شاہ کی اولاد ہیں۔ حسن آباد لٹکوہ سے آ کر ان کے کچھ گھرانے گریم لشٹ اور بیرزوز یارخون میں آباد ہیں۔
سادات ارکاری و زیباک: دونیچ یارخون کے پیر زادے چوئینج کے سید بلبل شاہ کی اولاد ہیں جنہیں 1917 کی بغاوت کے الزام میں جلاوطن کیا گیا تھا۔ لیکن ناصر الملک میتار نے اس کے بیٹے کو واپسی کی اجازت دی اور دونیچ میں زمین ملی۔ ان اولاد وہیں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک خاندان چوئینچ میں بھی رہتا ہے۔
اس قوم کا جد اولین غالبا کشمیر سے آکر اوی میں آباد ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نسلاً سکھ تھا۔ سنگھے قوم کی آبادی اوی، مراگرام (نمبرایک)، پرواک، بونی اور ریشون میں ھے۔
یہ قوم اصل میں موڑکھو کے گاؤں موژگول سے تعلق رکھتی ہے۔ وہاں سے نکل کر یہ لوٹ اویر اور چرون اویر میں آباد ہو گئے۔ بیار میں آج کل یہ چرون، چرون اویر اور بونی میں آباد ہیں۔
شامے قدیم لوگ ہیں جو مستوج کے چنار گاؤں میں آباد ہیں۔
یہ بھی قدیم قوم ہے جو یارخون میں ژوپو، گزین اور دوبارگر میں آباد ہے۔
یہ لوگ یارخون کے ݱوپو اور گازین میں رہتے ہیں۔ ان کا جد اعلیٰ سرغ بائے تھا۔ نام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پامیر کے علاقے سے ہوگا۔
یہ بھی قدیم قوم ہے۔ اس کے چند گھرانے سنوغر میں ہیں۔
چوئینج اور کھوݱ میں آباد یہ قدیم لوگ ہیں۔
ان کا اصل تعلق چرون اویر سے ہے لیکن مستوج اور سرغوز میں بھی کچھ گھرانے آباد ہیں۔ ان کا دعوےٰ ہے کہ یہ آشم بیگم کے ساتھ آئے تھے۔
چرون، چرون اویر اور بونی میں آباد ان لوگوں کا تعلق چوک مچوک کے سلسلے سے بتایا جاتا ہے۔ اسی نسل کے لوگ یسین میں بھی رہتے ہیں۔
انگریزوں نے مستوج میں ڈاکخانہ اور تار گھر کھولا تھا تو اس کو چلانے کے لیے ہزارے کے ایک شخص قطب الدین بابو کو یہاں متعین کیا۔ قطب الدین یہاں شادی کرکے بس گیا اور اس کی اولاد مستوج اور ریشن میں آباد ہے۔ ان کی روایت یہ ہے کہ یہ نسلاً ترک ہیں۔
یہ قدیم لوگ ہیں جو سنوغر میں رہتے ہیں۔
یخشیئے مراد یخشی کی اولاد ہے جو 1650 کے بعد ریئس شاہ ناصر کے عہد حکومت میں سنوغر میں آ کر آباد ہوا۔ اس کی اولاد اس مقام پر بدستور آباد ہے جسے یخشیاندہ کہتے ہیں۔ یہ قوم سنوغر کے علاوہ پرواک، سرغوز، مستوج، چنار، چوئنج، پرکوسپ، بانگ اور پردان میں آباد ہے۔
ان لوگوں کی آصل غالباً بدخشان کے یمگان درے کی ہے۔ یہ لوگ یارخون کے ݱوپو، کند، ݰوئست، اور وسم میں رہتے ہیں۔