Back

فہرست اقوام علاقہ بیار (موجودہ تحصیل مستوج)

گل مراد خان حسرت
27.01.2022

مرحوم گل مراد خان حسرت علاقہ بیار(تحصیل مستوج،  ضلع اپر چترال) کی تفصیلی تاریخ لکھنا چاہتے تھے، جس میں علاقے کے لوگوں کی نسلیات پر تحقیق بھی ہونی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے علاقے میں رہنے والے قوموں کی ایک فہرست بنا کر مجھے بھیجی تھی تاکہ میں اس پر کچھ اضافہ کر سکوں۔ میں نے کوہ (زیریں بیار) کے چند کم معروف قبیلوں کے ناموں کا اضافہ کر کے فہرست انہیں واپس کی تھی کہ اس دوران وہ بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوا۔ اس فہرست کی جو نقل میرے پاس محفوط ہے، اسی کو یہاں پر شائع کیا جا رہا ہے، تاکہ آئیندہ اگر کوئی اس موضوع پر کام کرنا چاہے تو اس کے لیے بنیاد کا کام دے سکے۔ اس موضوع پر تحقیق علاقے کی قدیم تاریخ کی گمشدہ کڑیوں کو ملانے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ فہرست یقیناً مکمل نہیں اور کافی سارے نام اور بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب اس سلسلے میں مدد کر سکیں تو شکریے کے ساتھ قبول کی جائے گی۔ یاد رہے کہ اس فہرست میں صرف ان گروہوں کے نام شامل ہیں جن کی قابل ذکر تعداد تحصیل مستوج میں آباد ہے۔ 

یہاں پر ضروری ہوگا کہ چترال کے معاشرے میں "قوم" کے تصور پر کچھ بات کی جائے۔

ہزاروں سال سے ارد گرد سے چھوٹے گروہوں اور افراد چترال کی وادیوں کو نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر جنوب سے آنے والے انڈو آرئین نسل کے لوگ تھے، تاہم شمال سے ترک اور تاجک نیز جنوب سے پشتون نسل کے لوگ بھی یہاں آکر بس چکے ہیں۔ ان نقل مکانیوں کے سبب چترالی لوگ انتہائی متنوع نسلی شناخت کے حامل ہیں۔ یہاں کوئی چھوٹا سے چھوٹا گاؤں بھی ایسا نہیں جہاں ایک ہی شناخت کے لوگ رہتے ہوں۔ اس کے علاوہ مخصوص تاریخی عوامل کے سبب چترال کا معاشرہ بڑی حد تک طبقاتی رہا ہے۔ ان طبقات کی سیاسی اور معاشی بنیادیں ہوتی تھیں۔ ایک شخص کا سماجی مرتبہ اس کے پیدائش کے وقت طے ہوتا تھا تاہم وہ قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر اس میں بہتری بھی لا سکتا تھا۔ چنانچہ طبقاتی ضرورت بھی گروہوں کو اپنی الگ شناخت برقرار رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت چھوٹے گروہ بھی اپنے آپ کو ایک الگ "قوم" سمجھتے ہیں اور اپنے نام و نسب کی حفاطت کرتے ہیں۔

اس فہرست میں ان قوموں کی طبقاتی درجہ بندی کا کوئی حوالہ نہیں، کیونکہ آج کل کے بدلتے سماجی منظر نامے میں طبقاتی تقسیم کے حوالے نہ صرف غیر ضروری ہوچکے ہیں بلکہ ان کا ذکر تلخیوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ تاہم اس بارے میں جاننے کے خواہشمندوں کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔ (ممتاز حسین)

Tribes of the Hindoo Koosh
Notes on Chitral
Military Report on Chitral-1903

اݯھنݮے

یہ سنوغر کی بومکی (قدیم) قوم ہے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پرواک کے تین افسانوی بھائیوں دربتوݰالی، سگ اور شاپیر میں سے کسی ایک کی اولاد کی ہیں۔ روایت کے مطابق پرواک کے ایک بارغیر آباد ہونے کے بعد یہ لوگ سنوغر منتقل ہوئے۔ یہاں ابتدائی طور پر وہ جس جائداد کے مالک تھے اسے اب بھی 'اݯھنݮار دور' کہا جاتا ہے حالانکہ موجودہ زمانے میں وہ اس جائداد کے مالک نہیں۔ یہ قوم اب موڑگرام (سنوغر)، پرواک اور مستوج میں آباد ہے۔

اڑغنی

یہ لفظ افغانی (پشتون) سے بگڑ کر اڑغنی بنا ہے۔ بیار میں چند پشتون گھرانے کارگین مستوج، بونی اور ریشن میں آباد ہیں اور مقامی معاشرے میں ضم ہوچکے ہیں۔

انگریز زادہ

ایک انگریز فوجی افسر نے چترال میں تعیناتی کے دوران کشم کی ایک خاتون سے شادی کی تھی جس سے ایک بیٹا یعقوب خان پیدا ہوا۔ انگریزوں نے اسے پرواک میں بڑی جایداد اور اپنے پاس ملازمت دی۔ مقامی طور پر وہ 'فرنگی ژیری' (فرنگی کی اولاد) کے نام سے مشہور ہوا۔ یعقوب خان کی اولاد پرواک میں آباد ہے۔ یہ لوگ برطانیہ میں اپنے خاندان سے رابطہ رکھتے ہیں جو وہاں کے معزز خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔

اوکیلے

قدیم قوم ہے۔ بیار میں اس قوم کی آبادی ڑاسپور اور زئیت میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ موڑکھو میں بھی رہتے ہیں۔

بازے

یہ قدیم لوگ ہیں جو بونی میں آباد ہیں۔

بائیکے

یہ تورکھو کی معتبر قوم ہے۔ بیار میں اس سے تعلق رکھنے والے چند گھرانے چرون اور بونی میں مقیم ہیں۔

بڈورے

یہ لوگ گلگت کے علاقے سے آکر ہرچین میں آباد ہوئے ہیں۔

بڈیڅے

ان کا وطن بالیم لاسپور ہے۔ مہتر خیر اللہ کے دور میں ان کا جد اول بڈیڅ یہاں کا حاکم رہا ہے۔

بڈیکے

یہ کافی پرانے لوگ ہیں اور ریشن اور چرون میں رہتے ہیں۔

براڑے

یہ قدیم لوگ ہیں جن کے کچھ گھرانے یارخون کے دیہات استج، خرزگ اور دیزگ میں ہیں۔

برامے

یہ ڑاسپور کی قوم اہم ہے جو ہرچین، رمان اور بروک کے علاوہ مہرتنگ یارخون میں بستی ہے۔

بروشے

یہ خوشوقت کے بیٹے امیرالملک المعروف بروش کی اولاد ہیں۔ بروش کی اولاد پنیال(پیاڑ) کے حکمران رہے ہیں اور وہیں رہتے ہیں۔ بیار میں ان کے چند گھرانے ریشن اور چنار میں آباد ہیں۔

بسوٹے

یہ قدیم قوم ہے۔ رئیسہ دور حکومت میں ان کے کچھ گھرانے سنوغر میں آباد تھے۔ سیاہ گوش زوندرے کے بیٹے سلطان شاہ اور ان کے درمیان کسی بات پر دشمنی ہو گئی۔ ایک دن کسی تقریب کے سلسلے میں ان کے مرد و زن ایک ہی گھر میں جمع تھے تو سلطان شاہ اپنے جتھے کو لے کر ان پر حملہ آور ہوا۔ اس حملے میں صرف ایک شخص بچ گیا۔ اس کی نسل سے چند گھرانے سرغوز میں موجود ہیں۔

بوڈے

یہ قوم زئیت اور کوراغ میں رہتی ہے اور کافی قدیم معلوم ہوتی ہے۔

بوژوکے

روایات کے مطابق قدیم زمانے میں چلاس سے دو بھائی چاق اور ماہ چاق(چوک مچوک) ہجرت کرکے چترال کی طرف آئے۔ ان میں سے چوک عشریت اور مچوک لاسپور میں آباد ہوا۔ لاسپور میں مچوک کی اولاد کو بوژوکے کہا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت سور لاسپور اور بالیم میں رہتی ہے۔ ان کے چند گھرانے پرواک میں بھی آباد ہیں۔

بنجے

اس نام کے چند گھرانے پترانگاز یارخون میں آباد ہیں۔ ان کا دعوےٰ ہے کہ وہ تریچ سے آئے اور ماژے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ غالباً ماژے بگڑ کر بنجے بن گیا ہے۔

بورے

بورے قدیم لوگ ہیں جو یارخون میں پاور اور چند دوسرے مقامات پر رہتے ہیں۔

بوبکے

یہ ریشن کے قدیم اور معتبر لوگ ہیں۔

بوشے

یہ بنیادی طور پر کشم کی قوم ہے۔ محاصرہ 1895ء میں اس قوم سے تعلق رکھنے والا قربان محمد انگریزوں کے ہمراہ محصورین میں شامل تھا۔ جس کے بعد اس کو جائداد اور ریاستی عہدے ملے اور معزز قرار پائے۔ بیار میں پرواک اور چنار میں ان کے چند گھرانے آباد ہیں۔ اسی نام کی ایک قوم چرون میں بھی رہتی ہے لیکن ان دونوں کا تعلق واضح نہیں۔

بیگالے

یہ رئیس دور کے ایک طاقتور شخص قوم مرزا بیگال کی اولاد ہے۔ مرزا بیگال کی رہائش دنین میں تھی۔ وہ رئیس کا معتمد خاص اور بہت طاقتور شخص تھا۔ کٹور اول نے جب اقتدار سنبھالا تو بیگال کے بیٹے مرزا جلال نے اس کی مخالفت کی اور جنگ پر آمادہ ہوا۔ مقابلے میں وہ شکست کھا کر مقتول ہوا اور ان کی جائداد ضبط کی گئی۔ دیگر علاقوں کے علاوہ بیار میں اس کی اولاد اب ریشن میں آباد ھے۔

پانے

یہ قوم ریشن میں آباد ہے۔ ان کی اپنی روایت کے مطابق ان کا تعلق تریچ کے ماژے گروہ سے ہے۔ چونکہ محمد بیگ کی بیوی ماژے قوم سے تھی، اور محمد بیگ کی جائیداد ریشن میں بھی تھی، اس لیے عین ممکن ہے کہ یہ لوگ اسی خاتون کے تعلق سے یہاں آباد ہوئے ہوں۔

جیکانے

جیکانے بالیم میں آباد ہیں۔ یہ قدیم لوگ ہیں جنہیں بڈلف نے خوشے، زوندرے وغیرہ کی کٹیگری میں شمار کیا ہے۔  کہتے ہیں ان کے جد اول کا نام ڈوٹ تھا جو ماہ چاق کی آمد سے پہلے بالیم میں موجود تھا۔

چھوڑاکے

یہ قبیلہ لاسپور کے ہرچین اور گشٹ میں رہتا ہے۔ اس کی اصل گلگت کی بتائی جاتی ہے۔

حاتم بیگے

یہ ملکہوہ کی قدیم سربراوردہ قوم ہے اور اپنے جدامجد حاتم بیگ اول کی نسبت سے حاتم بیگے کہلاتی ہے۔ اتالیغ محمد شکور اسی خاندان کے تھے۔ بیار میں چند حاتم بیگے خاندان چوینچ میں آباد ہیں۔

خوش آمدے

تاریخ چترال(غلام مرتضے) کے مطابق "محمد بیگ کی اولاد کے درمیان ابتدائی علاقائی تقسیم میں خوش آمد کو مستوج کا علاقہ ملا تھا۔ کچھ عرصہ بعد رئیس شاہ محمود نے حملہ کرکے دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو اس معرکے میں خوش آمد مقتول ہوئے۔ رئیسوں کے چترال پر قبضے کے بعد ان کا بیٹا شاہ جہان المعروف ڈوڈول یارکند چلا گیا۔ سنگین علی ثانی نے رئیس کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا تو شاہجہان واپس آیا اور کچھ عرصہ بعد وہ وفات پا گئے تو شاہ فرامرد نے یسین سے آکر اس کی نو عمر اولاد کی سرپرستی کی۔" لیکن دیگر روایات (خصوصاً جو یسین میں مشہور ہیں) سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ جہان یارقند سے واپسی کے بعد نہ تو مستوج واپس آیا اور نہ جلد فوت ہوا، بلکہ وہ یسین میں مقیم رہا۔ شاہ خیر اللہ کے دور میں وہ یسین میں ان کا نائب تھا۔ خیر اللہ کے قتل کے بعد شاہ پادشاہ خوشوقتیہ جلاوطنی سے واپس آیا تو سیاہ گوش اور یسین کے ایک آدمی کو بھیج کر شاہ جہاں کو قتل کرا دیا۔ اس کے بعد شاہ جہان کی اولاد بیار منتقل ہوئی جہاں ریشون، زئیت، چرون، جنالکوچ اور چرون اویر میں ان کی کچھ آبائی زمینات ان کو واپس مل گئیں۔ آج کل یہ انہی دیہات میں رہتے ہیں۔

خوش وقتے

خوش وقت کے دو بیٹے امیر الملک اور شاہ عالم تھے۔ امیر الملک کی اولاد بروشے کہلائی جب کہ شاہ عالم کی اولاد خوش وقت ہی سے منسوب رہی۔ یہ خاندان طویل عرصے تک بیار اور یاسین کا حکمران رہا اور ان کے دور کو خوشوقتے مہتری کہتے ہیں۔ خوشوقتے سلسلے میں شاہ فرامرد، ملک امان، شاہ خیراللہ، سلیمان شاہ اور گوہر آمان مشہور حکمران گزرے ہیں۔ خوش وقت حکمرانوں میں سے سلیمان شاہ اور گوہر امان نے سکھوں اور ڈوگروں کے ساتھ گلگت کے لیے طویل جنگیں لڑیں اور کافی عرصہ یہ علاقہ ان کے زیر اقتدار رہا۔ ان میں سے فرامرد اور خیر اللہ نے زیریں چترال کے علاقوں پر بھی حکومت کی۔ یہ حکمران یسین اور مستوج دونوں مقامات کو دارالحکومت کے طور پر استعمال کرتے تھے، لیکن ان کی توجہ زیادہ تر شندور پار کے علاقوں پر رہی۔ اس وجہ سے ان کی اصل آبادی شندور پار کے علاقوں میں ہے اور بیار میں ان کی آبادی بہت کم ہے۔ یہاں کچھ خوشوقتے گھرانے کھوݱ، چپاڑی، چوئنج، مستوج، بونی اور ریشون میں آباد ہیں۔

خیبرے

 اس قوم کے لوگ چوئینج، چپاڑی، دیو سیر، ݱوپو اور گازین میں رہتے ہیں۔

دݰمانے

یہ بنیادی طور پر موڑکھو کی قوم ہے، اور وہاں سے نکل کر اس کے افراد سارے چترال میں پھیل چکے ہیں۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس قوم میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں جن کا نسلی طور پر اصل قوم سے کوئ تعلق نہیں۔ چونکہ دݰمان کے معنی مولوی کے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی عالم دین مشہور ہوا، اس کی اولاد دݰمانے کہلائی۔ بیارمیں اس قوم کے چند گھرانے مستوج، پرکوسپ، پرواک اور بونی میں آباد ہیں۔

دورونے

یہ سور لاسپور کا قبیلہ ہے۔ ان کی اصل یسین کی ہے۔ ان کا جد اعلیٰ مہتر سلیمان شاہ کے زمانے میں یہاں حاکم تھا۔

دوکے

دوکے قدیم لوگ معلوم ہوتے ہیں یہ بونی میں آباد ہیں اور وسیع جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق اصل میں چرون سے ہے۔

ڈاننزے

یہ لوگ لاسپور کے ہرچین اور پھارگام میں رہتے ہیں۔ ان کی اصل داریل تانگیر کی ہے۔

ڈوشے

یہ لاسپور کے گاؤں رامن میں رہتے ہیں۔ ان کی اصل تانگیری بتائی جاتی ہے۔

رستمے

رستمے قوم کا تعلق بریپ یارخون سے ہے۔ مقامی روایات کے مطابق ایک مسلمان لشکر (غالباً کاشغری) شمال سے حملہ ہوا تو بریپ کے قلعے میں موجود مقامی غیر مسلم لشکر کا ان کے ساتھ کھوتان لشٹ میں مقابلہ ہوا۔ اس میں مقامی لشکر کو شکست ہوئی اور وہ پسپا ہوکر قلعے میں محصور ہوئے۔ قلعہ مضبوط تھا اور محاصرے نے طول پکڑا۔ حملہ اوروں نے قلعے کا پانی بند کرنا چاہا لیکن اس کی کوئی نہر نظر نہیں آتی تھی۔ آخر کار رستمے خاندان کی ایک خاتون نے حملہ اوروں کو بتایا کہ پانی کافی دور سے زمین دوز نل کے ذریعے لایا گیا ہے جو تونیݰو (آئبیکس) کے سینگوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد جب ان پر پانی بند کیا گیا تو محصورین نے قلعے کو اگ لگا کراپنے آپ کو جلا ڈالا۔ اس خاتون کے خاندان کو انعام کے طور پر علاقے کی چرویلی دی گئی جو رئیس دور کے بعد خوشوقت اور کٹور دور میں بھی نسل در نسل جاری رہی۔

رضا خیل

یہ محمد رضا بن سنگین علی اول کی اولاد ہیں۔ محمد بیگ کے بیٹوں کے ہاتھوں محمد رضا کے خاندان کے قتل عام کے بعد محمد رضا کا ایک بیٹا قزل بیگ بچ کر بدخشان جانے میں کامیاب ہوا۔ ایک عرصے بعد مصالحت کے نتیجے میں وہ واپس آیا تو اسے پورے چترال میں بڑی بڑی جائیدادیں دی گئیں۔ اس کی اولاد کی بیارمیں بڑی آبادی ھے اور وہ یہاں وسیع جائیدادوں کے مالک ہیں۔ بیار میں ان کی آبادی کارگین، چپاڑی، چوئنچ، مستوج، سنوغر، اوی، بونی اور ریشن کے علاوہ پورے یارخون میں ہے۔

ڑوقے

اس قوم کی ساری آبادی بونی میں ہے جہاں کے یہ قدیم ترین آباد کار (بومکی) سمجھے جاتے ہیں۔

زانگیے

اس قوم کے لوگ لاسپور کے گاؤں رامن میں آباد ہیں اور اپنی اصل بدخشان کی بتاتے ہیں۔

زوندرے

تعداد کے لحاظ سے یہ بیار کی سب سے بڑی قوم ہے اور اس کی مختلف شاخیں یہ ہیں:

سیرنگے: سیرنگ اول سے یہ سلسلہ شروغ ہوتا ہےجو لگ بھگ سترہویں صدی کے وسط میں باہر سے آکر سنوغر میں آباد ہوا۔ اب تک اس کی بارہ پشتیں نکلی ہیں۔ سیرنگے میں ایک شخص شاہ قاسم یارخون کا حاکم تھا جس کی نسل کو قاسمے کہتے ہیں۔ سیرنگے لعل آباد، بیرزوز، بریپ، چوئنج، مستوج، سنوغر، پرواک، میراگرام، اوی اور بونی میں آباد ہیں۔ بیار سے باہر صرف رائین اور خاص چترال میں ان کے چند گھرانے ہیں۔

شاگوشے: زوندرے کی دوسری شاخ شاگوشے ہے جو سیاہ گوش کی نسل سے ہے۔ سیاہ گوش سیرنگ ثانی کا سوتیلا بیٹا ہونے کی وجہ سے اس خاندان کا حصہ بنا۔ 1700 ء کے بعد رئیس اور کٹور اول کے درمیان جو جنگ برپا ہوئی اس میں سیاہ گوش نے کٹور کا ساتھ دیا اور کٹور کی فتح کی صورت میں جائیداد اور مراعات کا حقدارٹھہرا۔ سیاہ گوش کے پانچ بیٹے قاسم، صالح، سلطان شاہ، رحیم بیگ اور حکیم بیگ تھے۔ بیار میں اول الذکر تین بیٹوں کی اولاد بریپ، چوئینج، پاسوم، پرکوسپ، چنار، مستوج، سرغوز، سنوغر، پرواک، میراگرام، اوی اور بونی میں رہتی ہے۔ ۔ بیار سے باہر ان کی آبادی بہت کم ہے۔ کچھ گھرانے یسین اور زیریں چترال میں برنس میں آباد ہیں۔ رحیم بیگ اور حکیم بیگ کی ساری اولاد آیون میں آباد ہے

زوندرے یارخون: یہ زوندرے کی ایک الگ شاخ ہے جو یارخون کے میراگرام، ایمیت، پردان، دیوسیر اور پاور میں آباد ہیں۔

زوندرے لاسپور: یہ سیرنگ اول کے بھائی سرونگ کی اولاد بتائے جاتے ہیں جو بروک رمان اور بالیم میں آباد ہیں۔

زوندرے ریشون: تاریخ چترال (غلام مرتضے) کے مطابق ریشون کے زوندرے سوملک ثانی بن سیرنگ (غالباً سیرنگ اول) کی اولاد ہیں۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ سیرانگ اول کے دو بیٹے تھے ایک تو راجہ بیگ اور دوسرا (مذکورہ تاریخ کے مطابق) سوملک ثانی۔ ریشون میں دیگر دو خاندان ژوڑیاندور اور بورخوشاندور میں رہتے ہیں جن کا تعلق زوندرے قوم سے بتایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شیرے زوندرے کوراغ میں بھی آباد ہیں۔

زوندرے چرون: یہ سوملک نام کے کسی حکمران (غالباً سوملک ثانی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے) کی اولاد ہیں جو موڑکھو میں رہتا تھا۔ اس نے اس بیٹے کو چرون میں بسایا تھا۔ مقامی طور پر قدیم لوگ ہیں اور اس گاؤں میں بومکی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

زیادینے

زیادینے ایک قدیم قوم ہے۔ بیار میں ان کی آبادی چنار، مستوج، سرغوز اور بونی میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ موڑکھو میں بھی رہتے ہیں۔

زیلے

زیلے کو قدیم قوم سمجھا جاتا ہے ان کی آبادی یارخون میں لشٹ، پاور، شوئست اور میراگرام میں ھے۔

سادات

بیار میں سادات کی مندرجہ ذیل شاخیں آباد ہیں:

 سادات سنوغر: یہ شاہ محمد رضا ولی کی اولاد ہیں جو سترہویں صدی کے دوران سنوغر میں آباد ہوا تھا۔ اس کی اولاد زیئت، کوراغ، بونی، اوی، پرواک، سنوغر، سرغوز، مستوج، ہرچین، پرکوسپ، چوئنج، کارگین، کھوݱ، بریپ، پھݰک، بانگ، پترا نگاز، اور ݰوئست میں آباد ہیں۔ تعداد اور اثر و رسوخ کے لحاط سے یہ بیار کی بڑی قوم ہے۔

سادات ریچ: یہ شاہ محمد وصی کی اولاد ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اور شاہ رضا ولی ایک ساتھ آئے تھے۔ ان کا اصل وطن ریچ کی وادی ہے۔ بیار میں یہ لوگ کوراغ، چرون، بونی، مستوج، چوئنج، چپاڑی، بریپ، بانگ، میراگرام اور پردان میں رہتے ہیں۔

سادات حسن آباد: یہ پیر سید غلام علی شاہ کی اولاد ہیں۔ حسن آباد لٹکوہ سے آ کر ان کے کچھ گھرانے گریم لشٹ اور بیرزوز یارخون میں آباد ہیں۔

سادات ارکاری و زیباک: دونیچ یارخون کے پیر زادے چوئینج کے سید بلبل شاہ کی اولاد ہیں جنہیں 1917 کی بغاوت کے الزام میں جلاوطن کیا گیا تھا۔ لیکن ناصر الملک میتار نے اس کے بیٹے کو واپسی کی اجازت دی اور دونیچ میں زمین ملی۔ ان اولاد وہیں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک خاندان چوئینچ میں بھی رہتا ہے۔

سنگلے

سنگین علی اول کی اولاد میں سے جو گروہ کسی اور نام سے معروف نہیں ہوئے انہیں بطور مجموعی سنگلے کہا جاتا ہے۔ ان میں کٹور اول کے بیٹے شاہ افضل کو چھوڑ کر باقی بیٹوں کی اولاد شامل ہیں۔ یہ گروہ موڑکھو، لوٹکوہ اور زیریں چترال میں رہتے ہیں۔ بیار میں ان کی تھوڑی سی آبادی صرف دیزگ اور بونی میں ہے۔ 

سنگھے

اس قوم کا جد اولین غالبا کشمیر سے آکر اوی میں آباد ہوا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نسلاً سکھ تھا۔ سنگھے قوم کی آبادی اوی، مراگرام (نمبرایک)، پرواک، بونی اور ریشون میں ھے۔ 

ݰاغوٹیے

یہ قوم اصل میں موڑکھو کے گاؤں موژگول سے تعلق رکھتی ہے۔ وہاں سے نکل کر یہ لوٹ اویر اور چرون اویر میں آباد ہو گئے۔ بیار میں آج کل یہ چرون، چرون اویر اور بونی میں آباد ہیں۔

شامے

شامے قدیم لوگ ہیں جو مستوج کے چنار گاؤں میں آباد ہیں۔

شدوقے

یہ بھی قدیم قوم ہے جو یارخون میں ژوپو، گزین اور دوبارگر میں آباد ہے۔

شگونے

قدیم لوگ ہیں جن کے آباواجداد سنوغر میں آباد تھے، اور وہاں ایک جائیداد اب بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔ سیاہ گوش کا بیٹا سلطان شاہ ان کو سنوغر سے نکال کر پرکوسپ لے گیا تھا۔ اب وہ پرکوسپ کے شگونان دیہہ میں آباد ہیں۔

شنوقے

یہ بھی قدیم لوگ معلوم ہوتے ہیں جن کی آبادی میراگرام، پرواک اور پرکوسپ میں موجود ہے۔

شکرے

یہ کافی پرانے اور صاحب جائیداد لوگ ہیں۔ ان کی آبادی شکران دیہہ بونی میں ہے۔ اسی نام سے ایک قوم گشٹ لاسپور میں بھی موجود ہے جو اپنی حاضر جوابی کے لیے مشہور ہے۔

شغنیئے

ان کا جد اولین شغنان سے آیا تھا، اس نسبت سے اس کی اولاد شغنیئے کہلائی۔ "کوغوز پرین" شغنان میں ایک درے کے نام پر انہوں نے کوہ میں کوغزی گاؤں کا نام رکھا۔ ان کی اکثریت کوغزی، برغوزی، موری، کجو اور خاص چترال تک آباد ہے۔ بیار میں اس قوم کے لوگ چوئینج، کھوژ، استج، پاور، ݱوپو اور گازین میں رہتے ہیں۔

شُمقارے

یہ لوگ یارخون کے ݱوپو اور گازین میں  رہتے ہیں۔ ان کا جد اعلیٰ سرغ بائے تھا۔ نام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پامیر کے علاقے سے ہوگا۔

غوڑومے

یہ بھی قدیم قوم ہے۔ اس کے چند گھرانے سنوغر میں ہیں۔

قاضیئے

چوئینج اور کھوݱ میں آباد یہ قدیم لوگ ہیں۔ 

قریشی

نورستان کے لوگ اپنے آپ کو قریشی کہتے ہیں۔ مہتر شاہ فرامرد جب بشگال کی مہم سے واپس آیا تو اس کے ساتھ بشگال کا ایک باشندہ بھی تھا جسے اس نے سنوغر میں آباد کیا۔ اس کی نسل ایک معتبر قوم شمار ہوتی ہے اور سنوغر، پرواک، مستوج اور چویئنج میں آباد ہے۔

کٹورے

شاہ افضل اول ابن محترم شاہ کٹور اول کی اولاد کو کٹورے کہا جاتا ہے۔ کٹور اول نے 1700 کے لگ بھگ اپنے بھائیوں کی مدد سے ریئس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ شاہ کٹور کے خاندان کی حکومت بیشتر وقت زیریں چترال، موڑ کھو اور تورکھو میں رہی، اس لیے ان کی اولاد انہی علاقوں میں زیادہ ہے۔ بیار 1885 کے بعد کٹور مہتری میں شامل ہوا اور 1895 سے 1914 تک پھر اس سے الگ رہا۔ اس وجہ سے بیار کے علاقے میں کٹور خاندان کے زیادہ لوگ نہیں رہتے۔ مستوج میں سابق گورنر شہزادہ خوشوقت الملک کی اولاد کے علاوہ چند کٹورے خاندان چوئینج اور ریشن میں آباد ہیں۔

کڑامے

ان کے آباو اجداد کسی زمانے میں کالام کوہستان سے آکر بروک لاسپور میں آباد ہوئے تھے۔ چونکہ کھوار بولنے والے کالام کو کڑام بولتے ہیں اس لیے اس قوم کا نام کڑامے پڑا۔

گاݱے

بروک لاسپور میں یہ لوگ قدیم زمانے سے آباد ہیں اور بومکی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

لاقے

لاقے قدیم لوگ ہیں جو لاقاندہ چوئنج میں رہتے ہیں۔

لاوے

لاوے بریپ میں آباد ہیں یہ بھی قدیم قوم ہیں۔

مراد بیگے

ان کا اصل تعلق چرون اویر سے ہے لیکن مستوج اور سرغوز میں بھی کچھ گھرانے آباد ہیں۔ ان کا دعوےٰ ہے کہ یہ آشم بیگم کے ساتھ آئے تھے۔

معشوقے

چرون، چرون اویر اور بونی میں آباد ان لوگوں کا تعلق چوک مچوک کے سلسلے سے بتایا جاتا ہے۔ اسی نسل کے لوگ یسین میں بھی رہتے ہیں۔

مغلے

چرون اور چرون اویر کے قدیم لوگ ہیں۔ ان کا دعوےٰ ہے کہ یہ آشم بیگم کے ساتھ گلگت سے آئے تھے۔

مغلکے

اس نام کے لوگوں کی بڑی آبادی زیریں چترال میں سین اور اس کے اردگرد ہے۔ اسی قوم کے لوگ چرون اویر اور بونی میں بھی رہتے ہیں۔ چرون اویر کے یہ اولیں آباد کار (بومکی) سمجھے جاتے ہیں۔

وزیر بیگے

بنیادی طور پر موڑکھو کے لوگ ہیں۔ ان کی کچھ آبادی زئیت اور کوراغ میں بھی ہے۔

ہزاروی

انگریزوں نے مستوج میں ڈاکخانہ اور تار گھر کھولا تھا تو اس کو چلانے کے لیے ہزارے کے ایک شخص قطب الدین بابو کو یہاں متعین کیا۔ قطب الدین یہاں شادی کرکے بس گیا اور اس کی اولاد مستوج اور ریشن میں آباد ہے۔ ان کی روایت یہ ہے کہ یہ نسلاً ترک ہیں۔

ہشیئے

یہ قدیم لوگ ہیں جو سنوغر میں رہتے ہیں۔

یخشیئے

یخشیئے مراد یخشی کی اولاد ہے جو 1650 کے بعد ریئس شاہ ناصر کے عہد حکومت میں سنوغر میں آ کر آباد ہوا۔ اس کی اولاد اس مقام پر بدستور آباد ہے جسے یخشیاندہ کہتے ہیں۔ یہ قوم سنوغر کے علاوہ پرواک، سرغوز، مستوج، چنار، چوئنج، پرکوسپ، بانگ اور پردان میں آباد ہے۔

یمگانی

ان لوگوں کی آصل غالباً بدخشان کے یمگان درے کی ہے۔ یہ لوگ یارخون کے ݱوپو، کند، ݰوئست، اور وسم میں رہتے ہیں۔

یورے

یہ قوم بروک لاسپور میں آباد ہے۔ یہ غالباً یہیں آباد ݰخمیرے قوم کی شاخ ہیں جن کی اصل کشمیری بتائی جاتی ہے۔
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com