chitrali qaleen

<= BACK


برحق

تحریر: ممتاز حسین

ماسٹر غلام رسول کی کمر میں کافی خم آگیا تھا لیکن محمد قبول درزی برسوں مشین پر جھکتے جھکتے اس قدر جھک چکا تھا کہ دستے والی عام سٹک اس کے لیے بے کار ہو گئی تھی اور وہ ایک سیدھی لمبی لاٹھی کو درمیان سے یوں پکڑ کر چلتا جیسے سنتری بندوق پکڑ کر کھڑا ہوتا ہے۔ رہا حوالدار میجرسلطان مدد، تو وہ پریڈ گراونڈ میں برسوں اس قدر اکڑ چکا تھا کہ اب اس کی کمر جھکنے کے بھی قابل نہیں رہی، جیسے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سے سریا گزار کر سیمنٹ ڈال دی گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تینوں شیر محمد خان کے ہوٹل کے حاضرین تھے۔ ان کو گاہک اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ یہاں صرف چائے پینے کے لیے نہیں بلکہ وقت گذارنے کے لیے آتے تھے۔ تینوں شیر محمد خان کے بچپن کے ساتھی تھے۔ تلاش رزق میں عمر عزیز کے بیشتر و بہتر ماہ و سال باہر کی خاک چھاننے کے بعد تھک ہار کر گاوں لوٹ آئے تو یہ ہوٹل اور اس کے مالک کی رفاقت انہیں غنیمت لگی اور وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہ اور ان جیسے بوڑھے یا تو کسی کام کے نہیں رہے تھے یا پھر دنیا کے کام ہی بدل گئے تھے اور ان کے قابل نہیں رہے تھے۔ ان سب کی آل اولاد جوان ہوکر اور اب کام کرنے، باالفاظ دیگر خاک چھاننے کی ذمہ داری سنبھال چکی تھی۔

ہوٹل میں دن بھر تاش کی محفل جمی رہتی جس کے بنیادی ارکان تو یہی چاروں تھے، لیکن قصبے کے دیگر ازکار رفتہ بوڑھے، نکمےاور بے فکرے بھی جسب توفیق ان کا ہاتھ بٹاتے۔ تاش کے علاوہ بھی یہاں وقت گذاری بہت سا سامان تھا، محبتوں، شکایتوں اور بے ضرر غیبتوں کی صورت میں ۔ ہاں اگر کسی چیز کی کمی تھی تو نفرتوں کی۔ گاوں کی موجودہ نسل میں شاید ہی کسی کو یاد ہوگا کہ ہوٹل پہلی مرتبہ کب کھلا تھا۔ یہ ان دنوں کی یادگار تھا جب لوگ پیدل چلا گرتے تھے اور راستے میں اس قسم کے ہوٹلوں کا رواج عام تھا، جہاں تھکے ہارے مسافر چائے پینے کے لیے رکتے تھے۔ جب سے موٹر گاڑیوں کا رواج ہو چلا اس قسم کے اکثر ہوٹل بند ہوگئے لیکن شیر محمد خان اب بھی ایک پرانی روایت اور اپنی وضع داری، دونوں کو نبھائے جارہا تھا۔

گاوں کی معلوم تاریخ میں پہلی بار شیر محمد خان کا ہوٹل اس روز بند ہوگیا جب ماسٹر غلام رسول فوت ہو گیا۔اس روز محمد قبول درزی کی کمر معمول سے زیادہ جھکی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اور لگتا تھا کہ لاٹھی، بلکہ زمین بھی اس کا بوجھ مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اسے اور اسکے دوستوں کو یہ بات کسی طرح ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ ماسٹر ان میں نہ رہے۔ حالانکہ وہ خود جی اور چل پھر رہے ہیں۔ وہ چاروں تقریبا ہم عمر تھے ، اس لیے ماسٹر کی جدائی کے احساس کی علاوہ انہیں رہ رہ کر یہ خیال بھی آرہا تھا کہ شاید ان کی باری بھی دور نہیں۔ وہ ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتے تھے کہ انہیں ماسٹر کی جدائی کا غم زیادہ تھا یا اپنی موت کا خوف۔ کچھ بھی ہو، ماسٹر نے یوں اچانک ، بغیر کسی نوٹس کے مر کر ان کے لیے بڑا مسئلہ کھڑا کردیا۔اچھی بھلی زندگی گذر رہی تھی۔ خود ماسٹر بھی اچھا بھلا چل پھر رہا تھا۔ نظر اتنی تھی کہ دوسروں کے تاش کے پتے تانک جھانک کر دیکھ لیا کرتا۔ رہی کھانسی اور دمہ، وہ تو بڑھاپے کی معمولات ہیں اور کم ہی بیماری کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ، تاش کی محفل میں ماسٹر کی نشست کوئی اور سنبھال لے گا، لیکن کیا کوئی وہ باتیں بھی کر سکے گا جو ماسٹر کیا کرتا تھا؟

بہر حال ہوٹل نہ صرف دوبارہ کھل گیا بلکہ تاش کی بازی بھی جمنے لگی۔ ماسٹر کا ذکر رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا اور گپ شپ کا رنگ بھی جمنےلگا۔ لیکن ایک روز محمد قبول ہوٹل نہیں پہنچ سکا۔ چھوٹی موٹی بیماریاں تو اسے ٹھونگیں مارتی رہتی تھیں۔ لیکن ان کے لگتا تھا کہ کہ وہ ٹھیک ٹھاک بیمار ہوگیا ہے۔ بیٹے اسے اٹھا کر شہر کے ہسپتال لے گئے اور اس کی لاش اٹھا کر ہفتے بعد واپس اگئے۔ اس روز ہوٹل دوسری بار بند ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب کے یہ کھلا تو ایسا لگا کہ نہ کھلتا ہی تو بہتر تھا۔ حوالدار میجر ہوٹل پہنچا تو شیر محمد خان بیٹھا چھت کو گھور رہا تھا۔ یہ کہنا شاید مناسب نہ ہوگا کہ وہ چھت کی کڑیاں گن رہا تھا کیونکہ ہوٹل کے چولھے کا دھواں چھت پر اتنی سیاہی لیپ چکا تھا کہ شہتیروں اور کڑیوں کا فرق ہی مٹ چکا تھا اور سب ایک تاریک سیاہی میں ڈوب چکے تھے۔ بالکل ایسے جیسے موت کی تاریکی انسانوں کے درمیان ہر فرق کو ختم کر دیتی ہے۔ حوالدار میجر کی آمد کا اس پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ البتہ اس کی نظریں چھت سے ہٹ کر حوالدار میجر کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔ اس دن سے ہوٹل کی مجلس بے کارگاں کا ڈہانچہ ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔ ہوٹل حسب معمول کھلتا، حوالدارمیجر روز آکر شیر محمد خان کے سامنے بیٹھ جاتا۔ لیکن تاش کی محفل جمانے کا کسی کو حوصلہ نہیں ہوا۔ وہ دونوں دن بھر چپ چاپ ایک دوسرے کے الم گزیدہ چہروں کو تکتے رہتے اور دیانتداری سے یہ سمجتے کہ ایک دوسرے کا دل بہلا رہے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت میں وہ ایک دوسرے کا دل دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے تھے ان دونوں کا دکھ بھی عجیب پہلودار قسم کا تھا۔ ان کو گذرے ساتھیوں کی جدائی کا غم تو تھاہی لیکن ساتھ میں یہ فکر بھی کہ اب ان کی اپنی باری بھی دور نہیں۔ انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ جانے والے ساتھی اپنے ساتھ ان کی زندگیوں کا کچھ حصہ بھی لے گئے اور وہ اپنے کو ایک طرح سے نیم مردہ ہی سمجھ رہے تھے۔

آخر کار ایک دن حوالدار میجر بھی ہوٹل نہیں پہنچا۔ رات اس پر فالج کا حملہ ہو گیا۔ اس کی حالت دیکھ کر شیر محمد خان کو پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ موت سے بد تر زندگی کیسی ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ اسے ایسا بھی لگا کہ ماسٹر اور محمد قبول نے جلدی مر کر ایک طرح سے اچھا بھی کیا۔ چند روز بعد حوالدار میجر کی حالت پر موت کو بھی رحم آ گیا اور وہ اسے اس عذاب سے چھڑا لے گیا جسے ہم تکلفا زندگی کہا کرتے ہیں۔ شاید موت کو برحق بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسے مواقع پر کام آتی ہے۔ حوالدار میجر کے سوئم کے اگلے روز ہوٹل کھل گیا۔ شیر محمد خان نے اپنی نشست سنبھالی اور اطمیناں سے چائے بنانے لگا۔ اب وہ موت کے خوف سے سے بڑی حد تک آزاد ہو چکا تھا کیونکہ اس کے پاس موت کے ہاتھوں کھونے کے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ ماسٹر غلام رسول، محمد قبول، یہاں تک کہ حوالدار میجر بھی!

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com