Back

مصنوعی گلیشئیر- افسانہ سے حقیقت تک

ممتاز حسین
27.06.2024

ہمالیہ ہندوکش قراقرم کے وسیع پہاڑی خطے میں قطبین سے باہر دنیا کا سب سے بڑا برفانی ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ذخیرہ اربوں انسانوں اور دیگر جانداروں نیز متنوع نباتات کی ضرورت کا پانی فراہم کرتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران عالمی درجہ حرارت میں اضافے نے اس برفانی ذخیرے کے پگھلنے کی رفتار تیز کر دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئیندہ برسوں کے دوران اس برفانی ذخیرے رقبہ بہت گھٹ جائے گا اور ان سے نکلنے والے پانی کی مقدار بہت کم رہ جائے گی۔

یہ برفانی ذخیرہ گلیئشیرز، برف کے میدانوں (snow fields) اور زیر زمیں جمی ہوئی برف (Permafrost) کی شکل میں موجود ہے۔ برفانی ذخیرے کی ان صورتوں میں سے اہم گلیشیر ہے۔ برفانی علاقوں سے نیچے میدانوں میں آنے والا زیادہ تر پانی گلیشیرز میں سے نکلتا ہے اور گلیشیر پانی کے قدرتی چکر کا ایک اہم حصہ ہیں۔

گلیشیر کیا ہے

پہاڑی علاقوں میں بارشوں کا عمومی پیٹرن یہ ہوتا ہے کہ وادی کی نشیب میں بارشیں کم ہوتی ہیں اور جوں جوں آپ بلندی پر جاتے ہیں تو بارشوں کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ایک خاص بلندی سے اوپر بارشیں سارا سال برفباری کی شکل میں ہوتی ہیں۔ بلندی کے ساتھ ٹمپریچر کم ہوتا جاتا ہے اور برف کا پگھلاو کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہاڑوں کی بلندیوں پر پڑنے والی برف نہیں پگھلتی اور سالہا سال ایک دوسرے کے اوپر برف کی تہیں جمتی جاتی ہیں۔ جب برف کی تہہ زیادہ موٹی ہو جاتی تو پھسل کر چوٹی سے نیچے وادی میں گرتی رہتی ہے۔ اس گرنے کے عمل کو avalanche کہتے ہیں۔ اس طرح وادی میں گرنے والی برف جمع ہوتی جاتی ہے اور وادی کے نشیب کی طرف سرکتی رہتی ہے۔ اس طرح برف کا ایک سست رفتار دریا بن جاتا ہے جس کی رفتار کا انحصار وادی کی ڈھلوان اور برف کی مقدار پر ہوتا ہے۔ برف کے اس بہاؤ کی رفتار روزانہ ایک دو سینٹی میٹر بھی ہو سکتی ہے اور کئی میٹر بھی۔ برف کے اس مستقل بہاؤ کو گلیشیر کہتے ہیں۔ گلیشیر کی حرکت کی وجہ سے اس میں گہری دراڑیں بھی پڑتی رہتی ہیں۔ جب گلیشیر کا برف نشیب کی طرف آتا تو پگھلنے لگتا ہے۔ آخر ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں تک پہنچنے والی ساری برف پگھل جاتی ہے اور اس کے ساتھ آیا ہوا ملبہ (مٹی اور پتھر) اس جگہ جمع ہوتا رہتا ہے۔ یہ مقام گلیشیر کا منہ (snout) کہلاتا ہے۔ snout پر جمع ہونے والا ملبہ وادی کے آر پار بند باندھ دیتا ہے جس کے پیچھے گلیشیر کا پگھلنے والا پانی تالاب کی شکل میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ عام حالات میں اس تالاب کا پانی رفتہ رفتہ خارج ہوتا ہے، لیکن اچانک گرمی بڑھنے یا گلیشیر کے اوپر شدید بارش کے بعد پانی زیادہ آتا ہے اور تالاب کا بند ٹوٹ کر سیلاب کی صورت میں نیچے اتا ہے اور نقصان کرتا ہے۔ اس سیلابی صورت حال کو Glacial Lake Outburst Flooding (GLOF) کہتے ہیں۔

گلیشیر بڑے دریاؤں کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ پہاڑی خطے کی مقامی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ اس خطے کے بیشتر گاؤں کسی ذیلی وادی کے بڑے دریا سے ملنے کے مقام پر آباد ہیں۔ ان مقامات پر ذیلی وادی کے گیلیشر اور اس سے نکلنے والی ندی کے ساتھ بہہ کر انے والا ملبہ ایک ہموار یا نیم ہموار سطح بناتا ہے، جس پر کاشت کاری ہوتی ہے اور آبادیاں بستی ہیں۔ یہ گاؤں عام طور پر اس ندی سے سیراب ہوتا ہے اور ندی کے پانی کا منبع گلیشیر ہوتا ہے۔

ہماری زمین ماضی میں بڑی بڑی موسمیاتی تبدیلیوں سے گزری ہے۔ ان کے نتیجے میں اس پر کئی بار شدید سرد آب و ہوا کے طویل ادوار گزرے جو ہزاروں سال پر محیط تھے۔ ان سرد ادوار کے دوران گلیشیرز کی تعداد اور طوالت میں بہت اضافہ ہوا۔ اس علاقے کی وادیاں بیشتر ان گیشیرز کے کٹاو کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔ اسی طرح ذیلی وادیوں کے منہ پر جو قابل آباد کاری ہموار مقامات ہیں وہ بھی اکثر گلیشیائی عمل سے بنے۔ آج سے کوئی دس گیارہ ہزار سال پہلے آخری سرد دور ختم ہونے لگا تو گلیشیر پیچھے ہٹنے لگے۔ گلیشیرز کی پسپائی کا یہ عمل آج بھی جاری ہے لیکن گزشتہ ایک صدی سے انسانی عوامل کی وجہ سے اس میں تیزی آ رہی ہے۔ انسان مختلف قسم کے ایندھن جلاکر ایسی گیسیں ہوا میں شامل کر رہا ہے جن سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ پہلے اس بارے میں شک ظاہر کیا جاتا تھا تاہم اب کنفرم ہو چکا ہے کہ گزشتہ سو سال کے اندر دنیا کا اوسط درجہ حرارت نہ صرف بڑھ چکا ہے بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں تیزی بھی آ رہی ہے۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کا سب سے بڑا شکار گلیشیر ہیں جن کے پگھلنے کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہر سال برفباری کی شکل میں جتنی برف گلیشیر میں شامل ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ پگھل جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ کئی گلیشیر ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

نیا گلیشیر بنانے کی کوششیں

پہاڑی علاقوں میں گلیشیر ہر جگہ موجود نہِیں اور جہاں موجود ہیں وہاں ان کا سائز اور ان سے دستیاب ہونے والے پانی کی مقدار مختلف ہے۔ کچھ گلیشیرز سے اتنا پانی نکلتا ہے جو قریبی دیہات کی ضرورت سے بچ کر دریا میں چلا جاتا ہے۔ جبکہ کچھ سے نکلنے والا پانی قریبی دیہات کی ضرورت کو ہی پورا نہیں کرتا۔ کئی گاؤں ایسے بھی آباد ہیں جن کے اوپر سرے سے کوئی گلیشیر نہیں بلکہ وہ ہر سال پڑنے والی برف کے پگھلنے یا چشموں کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ جن دیہات کے اوپر گلیشیر نہیں ہیں وہ عموماً پانی کی شدید قلت کا شکار رہتے ہیں۔ ان دیہات میں زیر کاشت رقبہ محدود ہوتا ہے اور اس سے بھی مناسب پیداوار نہیں ہوتی۔ ان دیہات کے لوگ پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے مختلف ترکیبوں پر غور کرتے رہتے ہیں۔ کچھ مقامات پر کسی دوسرے قریبی نالے سے نہر نکال کر پانی کی فراہمی بہتر بنائی گئی ہے۔ جدید دور میں کچھ مقامات پر پائپ لائن کے ذریعے کافی دور سے یا دریا پار سے پانی لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قدیم زمانے میں پائپ دستیاب نہیں تھے اور پہاڑوں پر نہر تعمیر کرنا بھی بہت مشکل تھا۔ ایسی صورت مِیں لوگوں نے اس لائن پر سوچا کہ گاؤں کا اپنا گلیشیر بنایا جائے۔ یہ خیال اس پہاڑی خطے میں وسیع پیمانے پر موجود رہا ہے اور چترال سے بلتستان تک ایسی روایات موجود ہیں جن کے مطابق لوگوں نے مصنوعی گلیشیر بنایا ہے یا بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان روایات میں بہت سی باتیں مشترک ہیں جن میں سے کچھ باتیں تو عملی تجربے سے تعلق رکھتی ہیں اور کچھ خالصتاً دیومالائی نوعیت کی ہیں۔ ایسے ایک تجربے کو امریکی مصنف John Staley نے اپنی کتاب Words for My Brother میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے یہ روایت سنہ ساٹھ کی دھائی کے اواخر میں گلگت کے گاؤں مناور سے سنی اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ گلیشر بنانے کے مبینہ مقام کا دورہ بھی کیا۔ مصنف کو بتایا گیا کہ مذکورہ تجربہ اس وقت سے کئی سال پہلے کیا گیا تھا۔ تجربے کا جو طریقہ کار بتایا گیا ہے وہ اس خطے کے طول عرض میں پائی جانے والی روایات اور تصورات کے عین مطابق ہے۔ ان تصورات کے مطابق کسی جگہ آپس میں ملنے والے دو گلیشر نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں سے برف لیکر اگر کسی مناسب جگہ زمین میں دبا دی جائے تو ان سے نیا گلیشیر پیدا ہوگا جو وقت سے ساتھ پھلتا پھولتا رہے گا۔ اس طرح اس کے قریبی زمین کو وافر پانی دستیاب ہوگا۔

مناور کے پہاڑوں کی بلندیوں پر یہ تجربہ کس حد تک کامیاب رہا، اس بارے مِیں ہم زیادہ کچھ نہیں بتا سکتے۔ مقامی لوگوں کی رائے اس بارے میں منقسم ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس تجربے کے بعد نالے میں پانی کی مقدار بڑھی ہے جب کہ دیگر کا کہنا ہے کہ صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ تاہم مشاہدہ یہ ہے کہ مبینہ تجربے کے کوئی اسی سال بعد آج بھی یہ گاؤں بدستور پانی کی قلت کا شکار ہے۔ گاؤں کے اردگر بنجر زمینوں کی موجودگی اس کا بڑا ثبوت ہے۔ باقی مقامات، جہاں سے ایسے تجربوں کی روایات آئی ہِیں، تقریباً اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔

نیا گلیشیر بنانے کی مقامی روایت میں عملی تجربات کے علاوہ کچھ اعتقادات بھی شامل ہیں۔ جیسے گلیشیر کا نر اور مادہ ہونا، دونوں سے برف لے کر شامل کرنا جس سے نئے گلیشیر کی تولید ہو، برف کو گلیشیر سے تجربے کی سائیٹ تک پہنچانے کے دوران اسے زمین پر نہ رکھنا، تجربے کی جگہ جانور کا خون بہانا اور خون کو برف میں شامل کرنا وغیرہ۔ ان اعتقادات کی موجودگی میں اس عمل کے سائنسی طور پر قابل عمل ہونے پر بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ چنانچہ سائنسی بنیادوں پر ایسا کوئی تجربہ کرنا اور اس کے نتائج کو ٹیسٹ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ گلیشیر کو بڑھنے کے لیے درکار اضافی برف کہاں سے آئے گا۔

لداخ کا تجربہ

حالیہ برسوں میں گلیشیر بنانے سے ملتی جلتی کوششوں کی اطلاعات انڈیا کے زیر قبضہ لداخ سے آ رہی ہیں۔ لداخ ایک بہت بلندی پر واقع خشک آب وہوا کا خطہ ہے جہاں بارش اور برفباری نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں کہیں گلیشر ہیں ان کا پگھلاؤ گرمیوں کے عروج میں ہوتا ہے اور اس سے پہلے آب پاشی کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ بہت سے گاؤں ایسے بھی ہیں جن کے اوپر کوئی گلیشیر نہیں اور وہ پانی کے لیے چشموں یا سالانہ پڑنے والی برف پر انحصار کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ ماہرین نے یہ سوچا کہ کسی طرح سردیوں کے دوران ضائع ہونے والے پانی کو بچا کر اسے موسم بہار میں استعمال کیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ ڈیم بنا کر پانی کو اس میں ذخیرہ کرنے کا ہے۔ چونکہ ڈیم کی تعمیر پر کثیر لاگت آتی ہے اس لیے یہ وہاں قابل عمل ہے جہاں ذخیرہ کرنے کے لیے کافی پانی دستیاب ہو اور اس کی مدد سے آباد کرنے کے لیے وسیع رقبہ بھی دستیاب ہو۔ لداخ جیسے علاقوں مِیں نہ تو سردیوں میں وافر پانی آتا ہے اور نہ قابل کاشت رقبہ زیادہ ہے۔ اس لیے وہاں ڈیم بنانا قابل عمل نہیں تھا۔ ان ماہرین نے اس کا متبادل حل یہ سوچا کہ سردیوں میں دستیاب پانی کو برف جما کر رکھا جائے جو موسم بہار میں پگھل کر آب پاشی کے لیے دستیاب ہوگا۔ ان ماہرین نے اس مقصد کے لیے دو طریقے تجویز کیے۔ پہلے طریقے میں ندی میں اورندی سے زمینات تک پانی لانے والی نہر میں آر پار بہت رکاوٹی دیواریں بنائی گئیں۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے پانی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اور وہ جمتی جاتی ہے۔ سردیوں کے اختتام تک سارا پانی برف کے ایک بڑے ذخیرے میں تبدیل ہو جاتا ہے جو موسم گرم ہونے پر پگھلنے لگتا ہے۔ اس طرح نہر میں پانی آجاتا ہے جو فصلوں کی کاشت کے وقت کام آتا ہے۔

دوسرے طریقے میں پانی کو پائپوں کے ذریعے وادی کے ایسے حصے میں پہنچایا جاتا ہے جہاں سورج کی روشنی بالکل نہیں یا بہت کم پہنچتی ہے۔ وہاں ایک عمودی پائپ کھڑی کرکے اس میں سے پانی کو گزارا جاتا جو پائپ کے اوپر حصے سے خارج ہوکر زمیں پر گرتا ہے اور جمتا جاتا ہے۔ اس طرح برف کا ایک مینار بنتا جاتا ہے۔ اس طریقے کو مقامی بودھ میناروں کے نام پر Ice Stupa کا نام دیا گیا۔ یہ طریقہ نہر میں پانی کو جمانے کی نسبت ذیادہ کامیاب ثابت ہوا کیونکہ سایہ دار جگہ میں پانی آسانی سے جمتا ہے اور دیر تک پگھلتا رہتا ہے۔

لداخ کے تجربوں کو گلگت بلتستان اور چترال میں بھی آزمایا جاتا ہے۔ یہاں بھی لداخ جیسے بلند بالا علاقے موجود ہیں جہاں گرمیوں کے آغاز سے پہلے پانی کی قلت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض سالوں کے دوران موسم بہار معمول سے سرد ہونے کے سبب کم بلندی والے علاقوں میں بھی گلیشیر کا پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ یہ مسئلہ ان سالوں میں خصوصی طور پر شدید ہوتا ہے جب موسم بہار کی بارشیں کم ہوں۔ ایسے حالات میں وہ گاؤں بھی پانی کی شدید قلت کا شکار رہتے ہیں جہاں عام حالات میں پانی وافر میں مقدار میں دستیاب ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ جن دیہات کے اوپر کوئی گلیشیر نہیں ان کے اوپر بھی اس طرح تجربے عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ ان تجربات سے بہت کم خرچے سے پانی کی دستیابی کو نمایاں طور پر بہتر کیا جا سکتا ہے۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com