Back

امان- کھوار کا عشقیہ شاعر

فرید احمد رضا
16.08.2023

کسی زبان کی لوک شاعری اور موسیقی اس کا ادب اور ثقافت کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔ خصوصاً چھوٹی زبانوں کے معاملے میں تو لوگ ادب ہی تقریباً سب کچھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹی زبانوں کو معدوم ہونے سے بچانے میں موسیقی اور شاعری کا ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کھوار زبان میں شاعری کی تاریخ بہت پرانی ہے ،جس کا بڑا حصہ عشقیہ گیتوں پر مشتمل ہے ۔ کھوار عشقیہ گیتوں اور ان سے منسلک محبت کی داستانوں کے بہت سے کردار افسانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک نام امان اور اس کی محبوبہ خوش بیگم کا ہے۔ ایک صدی سے پرانی یہ داستان اور اس کے گیت وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے ذہن سے محو ہونے کے بجائے روز بروز مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔

امان کاتعلق گلگت بلتستان کے ضلع غزر میں چٹورکھنڈ ، اشقمن سے تھا۔ ضلع غزر چترال کے بعد کھوار زبان کا دوسرا گھر ہے(1)۔ اس علاقے نے کھوار لوگ ادب اور موسیقی کو کئی انمول تحفے دیے جن میں سے ایک خوش بیگم کا رومان بھی ہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہےکہ امان اور خوش بیگم کا رومان جتنا مشہور ہے، ان کے حالات زندگی اتنے ہی حالت پردۂ اخفا میں ہیں ۔ چند سال پہلے سیر و سیاحت کےلیےضلع غزر جانا ہوا تو چٹورکھنڈ میں امان کے قبر پر جانے کا بھی موقع ملا۔ خوش قسمتی سے محترم صفی اللہ صاحب ڈائریکٹر ٹورزم گلگت بلتستان کے توسط سے امان کی اولاد کے گھر جاکر اس خاندان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے اور ان کے حالات جاننے کا موقع میسر آیا۔

امان کے بھتیجے حسین امان (ریٹائر صوبیدار ) نے سب سے پہلے ان کے گھر جانے پر ہمارا شکریہ ادا کیا۔اس کے بعد اس نے امان کی عشقیہ داستان اور ان کے گیتوں کے بارے میں اپنے خاندان میں موجود روایات کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ انہوں نے چترال کے گائیکوں،موسیقاروں، ریڈیو پاکستان چترال اور تمام ادب دوست شخصیات کا شکریہ بھی ادا کیاکہ ان کی وجہ سے امان کا نام زندہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چترال میں روز امان کی شاعری کا تذکرہ ریڈیو، مقامی ٹی وی اور میوزک پروگراموں میں ہوتاہے۔ان کی شاعری چترال کے مختلف موسیقار گاتے ہیں، جو چترال والوں کی محبت ہے۔ جب تک چترال والوں کی محبت زندہ ہے میرے اس بزرگ کا نام زندہ رہے گا۔ تاہم ان کا شکوہ ہے کہ چترال میں امان کے حالات زندگی کے بارے میں بہت سی غلط باتیں مشہور ہیں جن کو درست کرنے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی(2)۔

حسین امان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ امان کو وخی میتارعلی مردان خان(3) کا بیٹا بتاتے ہیں جوکہ کسی طور سے بھی درست نہیں ہے۔ اس نے اپنے خاندان کا تعلق خوشوقتے خاندان سے بتایا، جس کی تفصیل یوں ہے:
"خوشوقتے حکمران ملک امان(4) کے فرزند مہتر امان کے دوبیٹے تھے غلام حسین اور حسین امان ۔ حسین امان کے ہاں امان کی پیدائش علاقہ اشقمن کے گاؤں دائین میں ہوئی۔ صوبیدار حسین امان نے وضاحت کی کہ ان کے آبا ؤ اجداد پہلے یسین میں رہتے تھے ، جہاں سے وہ چیق میتار5(5) کے ساتھ داین میں آ گئے۔داین کی جائیداد ہاتھ سے نکلنے کے بعد وہ چٹورکھنڈ میں آ گئے جہاں اب وہ مستقل طور پر آباد ہیں۔"

اما ن اور اس کے بھائیوں کا داین سے نکل کر چھٹورکھنڈ میں منتقل ہونے کا قصہ بھی صوبیدار حسین امان کے مطابق امان کے عشق کی داستان کا نتیجہ تھا اس کے مطابق:
نوجوانی میں امان کو دائین ہی میں ایک لڑکی 'خوش بیگم 'کے ساتھ عشق ہوگیا اور امان نے اس کی تعریف میں عشقیہ گیت کہنا شروع کیا۔ گاوں میں امان اور اس کی معشوقہ کو ملنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ گاوں کے لڑکے اور لڑکیاں مال مویشیاں لے کر دائین کی غاری(6) گئے ہوئے تھے۔ ان میں امان کی معشوقہ بھی شامل تھی۔وہاں پہنچ کر لڑکیاں کھیل کود میں مشعول تھیں اور بڑے اپنے کاموں میں مصروف۔امان ا س دوراں گاؤں سے بہت سارے سیب لے کر وہاں پر پہنچ گیاتو گاوں کی ساری لڑکیاں ان کے پاس جمع ہوگئی ۔ اس نے لڑکیوں میں سیب بانٹنا شروع کیا ۔ جب خوش بیگم کی باری آئی توامان نے تین خوبصورت سرخ سیب چن کر خوش بیگم کو دینے کے بہانے ان کے ہاتھ پکڑ کر زبردستی ایک طرف لے گیا۔ جب خوش بیگم کی سہیلیوں نے شور مچایا تو وہاں پر موجود بڑوں نے خوش بیگم کو اس سے چھڑا لیا ۔ جب امان کے عشق کی بات کھل گئی تو امان کے خاندان والوں نے کوشش کی کہ خوش بیگم اور امان کا رشتہ آپس میں طے پائے۔ خوش بیگم کے گھر والوں نے یہ شرط رکھ دی کہ ہم خوش بیگم کا رشتہ امان سے کرانےکےلیے تیار ہیں اگر وہ موسیقی کی محفلوں میں خوش بیگم کے نام سے گانے گانا چھوڑ دے کیونکہ اس سے خاندان کی بدنامی ہو رہی تھی۔ چٹورکھنڈ کے ادب دوست صحافی کریم رانجہ کے مطابق امان نے پہلے تو یہ شرط بخوشی قبول کرلی لیکن بعد میں وہ اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کرسکا اور اپنے داستان عشق محفلوں میں سناتا رہا۔اس طرح امان کی شادی اس کی معشوقہ سے نہ ہوسکی۔ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد خوش بیگم کی شادی داین سے دور غزر کے گاؤں گولاغموڑی میں کردی گئی۔ یوں امان اور خوش بیگم مستقل طور پر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ۔

خوش بیگم کی جب شادی ہوگئی تو امان کے دل میں خوش بیگم کے خاندان کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ اس خاندان کی ایک خاتون کو بھگا کر روپوش ہو گیا۔ لڑکی کا خاندان امان کا کھوج لگا کر اس پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے لگا تو امان لڑکی کو لے کر مقامی حکمران علی مردان خان کے پاس پناہ لینے پہنچ گیا۔ لڑکی والے بھی پیچھے علی مردان خان کے پاس پہنچ گئے اور اپنی لڑکی واپس مانگی۔ علی مردان خان نے امان کو حکم دیا کہ یا تو وہ لڑکی واپس کر دے یا اپنی جائیداد جرمانے میں دے دے۔ امان نے چونکہ لڑکی سے شادی کر لی تھی اس لیے اس کی غیرت نے اسے واپس کرنا گوارا نہیں کیا اور یوں وہ اپنی ساری جائیداد سے دستبردار ہوگیا۔ دائین میں اس کے خاندان کی ساری جائیداد ضبط کر لی گئی اور اس کا نصف لڑکی کے خاندان کو تاوان میں دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد امان کے دو چھوٹے بھائیوں موسی امان اور عنایت امان نے مہتر سے درخواست کی کہ امان کے جرم کی سزا پورے خاندان کو دینا انصاف نہیں اسلیے ان کی جائیداد واپس کی جائے۔ یہ درخواست منظور نہیں ہوئی تو انہوں نے بامر مجبوری اپنے آبائی وطن یسین جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس زمانے میں کسی خاندان کا ملک چھوڑ جانا اس علاقے کے حکمران کے لیے باعث عار سمجھا جاتا تھا، اس لیے علی مردان خان نے مجبوراً اس خاندان کو چٹورکھنڈ میں دوسری زمین دے دی جہاں وہ بس گئے۔ امان علاقہ چھور کر جانا چاہتا تھا لیکن اس کے بھائیوں نے اسے اپنے ساتھ چٹورکھنڈ میں رکھ لیا اور اس زمین میں اسے بھی حصہ دے دیا۔ امان کی اولاد کے مطابق یہیں پر امان نے بقیہ زندگی گزاری اور فوت ہوا۔ وہ اس روایت کو غلط قرار دیتے ہیں کہ امان اس دشمنی کے نتیجے میں قتل ہوا۔ امان نے اپنی محبوبہ کے لیے بہت سے گیت بنائے اور ساری زندگی انہیں گاتا رہا۔ ان گیتوں کے کچھ حصے سینہ بسینہ منتقل ہو کر اب بھی محفوظ ہیں اور کھوار لوک شاعری کے بہترین نمونوں میں سے سمجھے جاتے ہیں۔


نوٹس (ایڈیٹر)

1۔ کھوار بنیادی طور پر وادیٔ چترال کی زبان ہے، لیکن یہ شندور پار گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔غزر وادی کی واحد زبان کھوار ہے، جب یہ کہ اشقمن وادی کی بڑی زبان اور یسین کی دوسری بڑی زبان ہے۔ اس کے علاوہ پونیال وادی میں بہت سے لوگ کھوار بولتے ہیں۔ یہ چار وادیاں، جو اب ضلع غزر کہلاتی ہیں، ماضی میں چترالی نسل کے خوشقوتے حکمرانوں کے ماتحت رہے ہیں اوران کے دور میں چترال سے کافی آبادی یہاں منتقل ہوئی۔

2۔ چترال میں امان کی کہانی کا دوسرا ورژن بھی مروج ہے جس کی طرف یہاں اشارہ ہے۔ یہ ورژن اور اس کے ساتھ امان کے گیتوں کے کچھ حصوں کا ترجمہ اس صفحے پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
Khosh Bigim— A love Song

3۔ علی مردان خان واخان کا حکمران تھا، جو اس علاقے پر افغان قبضے کے بعد نکل کر انگریزوں کے پاس آ گیا۔ ان کی بقیہ زندگی کا زیادہ حصہ اشقمن میں گزرا جہاں وہ انگریزوں کی طرف سے گورنر کے طور پر کام کرتا رہا۔

4۔ غالباً ملک امان اول مراد ہے جس کی وفات انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی تھی اور جس کے چالیس بیٹے بتائے جاتے ہیں۔

5۔ خوشوقتے خاندان کا آخری حکمران غلام محی الدین عرف پہلوان تھا۔ اس کی معزولی کے بعد خوشوقت ریاست (یسین، اشقمن، غزر، اور مستوج) کٹور ریاست میں ضم کر دی گئی۔ پہلوان کے تین بیٹے تھے، عبدالرحمٰن خان، محمد رحیم خان اور سلطان محی الدین۔ اول الذکر دو انگریزوں کی طرف سے یسین اور گوپس وغیرہ میں گورنر رہے۔ تیسرا بیٹا سلطان محی الدین دائین، اشقمن میں جاگیر رکھتا تھا اور تانگیر کے قبائلی علاقے میں حکومت قائم کرنے کی کوشش میں قتل ہوا۔ سلطان محی الدین کی عرفیت "چیق میتار" یعنی چھوٹا میتار تھا۔ یہ بھی عاشقانہ مزاج کا آدمی تھا جس کا ایک کھوار گیت مشہور ہے۔

6۔ پہاڑی علاقوں کے لوگ موسم گرما میں مال مویشیوں کے ساتھ بلند چراگاہوں پر دو تین مہینے گزارتے ہیں۔ ان عارضی آبادیوں کو کھوار میں غاری کہتے ہیں۔ ان چراگاہوں میں سے بعض میں کچھ کھیتی باڑی بھی ہوتی ہے۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com