<= BACK

چترال میں ریشم سازی کی گھریلو صنعت

مولا نگاہ نگاہ

چترال میں ریشم سازی کی صنعت بہت قدیم زمانے سے تقریباً ہر گاوں میں موجود تھی۔ خواتین ریشم کے کیڑےپالنے کا باقاعدہ اہتمام اپنے گھروں میں کیا کرتی تھیں۔ریشم سازی ان کا ایک دلچسپ اور منافع بخش مشغلہ ہوا کرتی تھی۔ ریشم کے کیڑوں کی افزائش موسم بہار میں اُس وقت کی جاتی جب توت کے درختوں پر پتے آنے شروغ ہوتے۔ سب سے پہلے پچھلے سال کے محفوظ کیے ہوے ریشم کے کیڑوں کے انڈے کپڑے کے ایک ٹکڑے میں باندھ کر انہیں انسانی جسم سے حرارت پہنچائی جاتی۔ بعد میں ان انڈوں کو نیم گرم راکھ میں کچھ دیر کے لیے دبا دیا جاتا، جس کے نتیجے میں ان انڈوں سے نہایت باریک اور نازک کیڑے پیدا ہوتے۔ پھر ان کیڑوں کو راکھ سمیت ایک صاف تختے میں ڈال کر ان پر بکری کے صاف بالوں کی ایک ہلکی سی تہہ بچھادی جاتی۔ ایک دو دنوں کے بعد یہ بچے راکھ سے نکل کر ان بالوں سے چمٹ جاتے اور خوراک کی تلاش شروع کرتے۔ اس وقت یہ تختہ اٹھا کر ایک محفوظ کمرے میں رکھ کر انہیں خوراک دی جاتی۔ ان کی ابتدائی خوراک توت کے پتوں کے نوخیز نرم شگوفوں ہوتے۔ کیڑوں کے ان بچوں کو جو بمشکل نظر آتے، کھوار میں "بیس" کہا جاتا ہے۔ ایک ہفتے بعد جب کیڑے تھوڑے بڑے ہو جاتے تو بالوں کے اوپر جھاڑیوں کی باریک ٹہنیاں بچھائی جاتیں اور کیڑے بالوں سے نکل کر ٹہنیوں پر چڑھ جاتے۔ کیڑوں کی خوراک کی مقدار دن بدن بڑھتی رہتی۔ تقریباً تین ہفتے بعد یہ کیڑے جب اور بڑے ہوجاتے تودرختوں کی کچھ بڑی شاخیں ان کے اوپر رکھ دی جاتیں اور ریشم کے کیڑے ان میں لگ جاتے، اس مرحلے پر کیڑوں کو مقامی زباں میں "بیش" کہا جاتا۔ اس کے بعد کیڑے ریشم بنانا شروغ کرتے جسے وہ اپنے گرد لپیٹتے جاتے یہاں تک کہ وہ زرد رنگ کے ڈوڈوں میں چھپ جاتے۔ ڈوڈوں میں تبدیل ہونے کے بعد کیڑوں کو خوراک کی ضرورت نہیں رہتی۔

چند مزید دن انتظار کے بعد ڈوڈوں سے پروانے نکل کر اڑنے لگتے ۔اس دوراں میں وہ انڈے دینا بھی شروع کرتے جو لاکھوں کی تعداد میں ہوتے۔ چونکہ کیڑوں سے ڈوڈے کی صورت اختیار کرتے وقت یہ ڈوڈے خشک ٹہنیوں سے چپکے ہوتے تھے اس لئے ہلکی احتیاط کے ساتھ ان ٹہنیوں کو اٹؑھا کر نیچے کا تختہ انڈوں کے لئے خوب صاف کیا جاتا تھا اس لئے لاتعداد انڈے تختے میں ڈھیر بنتے کیوں کہ پروانے دن رات عین اپنے مسکن کے اوپر ہی منڈلاتے رہتے تھے۔ کم وبیش ایک ہفتے تک تخم یابی کی مہلت کے بعد شاخیں ان زرد رنگ کے ڈوڈوں کے ساتھ اٹھا لی جاتیں اور انڈے سمیٹ کر اگلے سال کے لیے محفوظ کیے جاتے۔

حاصل شدہ پیداوار کی صفائی کے مراحل:

سب سے پہلامرحلہ ڈوڈوں کے خولوں کو خشک شاخوں سے چن چن کر الگ کرنے کا ہے ، جس میں خواتین شاخوں سے سوراخ شدہ زرد ریشمی خولوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ الگ کرکے پاس بچھائی گئی صاف چادر پر ڈال کر دیتیں ۔ اس کے بعد خوب باریک چھنی ہوئی راکھ پانی میں ملا کر اس محلول کو بڑے دیگ میں ابالا جاتا جس میں ڈالنے سے سے ڈوڈوں کا رنگ زردی سے سفیدی میں تبدیل ہوجاتا، جس کے بعد انہیں دھوپ میں سکھایا جاتا تھا۔ سوکھ جانے بعد بڑی احتیاط کے ساتھ خواتین اپنے ہاتھوں سے ریشم کے ان پیلوں کو کھینچ تان کر پروانوں کے خولوں کی کثافتیں صاف کرکے چھوٹے چھو ٹےگالوں میں جمع کر لیتیں اور پھر ان میں سے اکہری کچی ریشمی تاروں کے گھچے بناتیں اور ایک نازک دستی چرخی میں ان ریشمی تاروں کو لپیٹ کر رکھ لیتی تھیں یوں ریشم تیار ہو جاتا جس کا رنگ برف جیسا سفید اور چمکدار ہوتا تھا۔۔ ریشم کو کھوار زباں میں " کچ " کہا جاتا ہئے جس کی نزاکت اور نفاست کا تذکرہ قدیم لوک روایات اور شاعری میں پایا جاتا ہے۔ کڑھائی کے کام کیلئے ریشم کا کچّا اور اکہرا تار سوئی میں ڈال کر استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ریشم کے تار کا دوہرا ہونے یا تاؤ کھانے کی صورت میں کڑھائی کا کام مطلوبہ انداز میں نفیس اور خوبصورت نہیں ہو سکتا اور موٹا تار چھوٹی اور باریک سوئی کے ناکے میں نہیں نکل سکتا اور اگر بمشکل ایسا ہو بھی سکے تو کپڑے کی سطح پر کاڑھے ہوئے نقش و نگار ابھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے اپنی نفاست کھو بیٹھتے ہیں اور مطلوبہ خوبصورتی حاصل نہیں ہو سکتی۔ سفید ریشم کو نقش ونگار بنانے کی غرض سے مختلف رنگوں میں رنگا جاتا تھا جس سے نقش و نگار کے مختلف حصے باہمی یکسانیت سے ترتیب پاتےتھے جس سے کڑھائی دلکش اور دیدہ زیب ہوتی تھی۔

ریشم کی مصنوعات

قدیم چترال کے باسیوں کو یہ فخر حاصل ہئے کہ وہ ضرورت کی ساری اشیاء مقامی طور پر اپنی محنت سے حاصل کر لیتے تھے مثلا اونی کپڑے سے مردانہ اور زنانہ پوشاک تیار کی جاتی تھی اور اونی دھاگوں سے مفلر ،جرابیں، دستانے،بنیان،آزاربند اور پاپوش کے تسمے وغیرہ بُن کر تیار کیئے جاتے جس کے لیے لڑکیوں کو بچپن ہی میں تربیت دی جاتی تھی۔ اسی طرح ریشم کی مصنوعات میں مہارت بھی ان کے لئے لازمی ہوتی تھی۔ یوں عورتیں کڑھائی کی مدد سے زنانہ و مردانہ ارائشی ملبوسات خود تیار کرتیں جن میں زنانہ کپڑوں کے لئے گلا ،آستینیں،حاشیئے، ریشمی کڑھائی والی زنانہ ٹوپیاں، سر بند، مردوں کے شوقوں کے لیے تک، چاقو کنگھی وغیرہ کے غلاف وغیرہ بڑی مہارت اور سرعت سے تیار کئے جاتے تھے، جو خود گھروں میں بھی شادی بیاہ کے موقعوں پر استعمال کئے جاتے اور تجارتی پیمانے پر بھی مہنگے داموں فروخت ہوکر آمدنی کا خاطر خواہ ذریعہ بنتے تھے۔ بہت سے دیگر گھریلو صنعتوں اور دستکاریوں کی طرح ریشم سازی کا روایتی فن بھی اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔

مولا نگاہ نگاہ چترالی ادیب، شاعر اور پیشے کے لحاظ سے استاذ ہیں۔ انہیں کھوار ادب، چترالی ثقافت اور روایات پر سند کا درجہ حاصل ہے۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com