<= BACK

ریاست چترال میں وزیر کے عہدے کی تاریخ


چترال کی قدیم ریاست ایک مخصوص طرز حکومت کی حامل تھی۔ یہ طرز حکومت کئی صدیوں کے ارتقاء کا نتیجہ تھا جس کے دوران یہ علاقہ مختلف طریقوں سے بیرونی اثرات سے متاثر ہوتا رہا۔ اس دوران نہ صرف بیرونی تجارت اور نقل مکانی کے زریعے بیرونی اثرات یہاں پہنچے، بلکہ کئی حملہ اوروں نے اس کو فتح کرکے یہاں حکومت بھی کی۔ یہ بیرونی اثرات چترالی تہذیب و ثقافت کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں کی مخصوص طرز حکومت ان اثرات کی ایک واضح مثال ہے۔ چترالی نظام حکومت کے عہدوں کے ناموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اصل اردگرد کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ مثلا اتالیق، اقسقال جیسے نام یقینا وسط ایشیائی اصل رکھتے ہیں، براموش سنسکرت اصل کا، جبکہ چرویلواور چھاربو وغیرہ خالصتا مقامی نام لگتے ہیں۔ ان ناموں کے درمیان وزیر اور حاکم جیسے نام ہمیں اس علاقے کی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں شاذو نادر ہی ملتے ہیں۔ انیسویں صدی کے وسط کے بعد ہی ان عہدوں سے ہمیں واسطہ نسبتا زیادہ پڑتا ہے۔
یہاں پر ہم اس ریاست کے اندر وزیر کے عہدے کی ابتدا اور اس کے حاملیں کا مختصر تذکرہ کریں گے۔ اس ملک کی تاریخ میں پہلا شخص جو اس وزیر کے نام سے مشہور ہوا وہ محبت خان ہے۔ درالحکومت کے قریب موضع شالی کا یہ شخص ان چند افراد میں سے تھا، جنہوں نے محترم شاہ کٹور ثانی کے زمانہ جلاوطنی میں بے مثال وفاداری کا ثبوت دیا اور شدید مصائب برداشت کیے۔ ان کی مدد سے تخت پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد شاہ کٹور نے ان لوگوں کو بلند مراتب پر فائز کیا۔ محبت خان کوان کی وفاداری کے صلے میں جاگیروں اور دیگر انعام و اکرام سے نوازا گیا ، لیکن اسے یہ خصوصی اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اسے وزیر کے نام سے پکارا گیا۔ دراصل اسے یہ لقب کی دانائی کے سبب دیا گیا۔ محبت خان شاہ کٹور کے دور ہی میں فوت ہوا تو ان کے بیٹے منفعت خان کو ان کی جگہ وزیر کا عہدہ تفویض کیا گیا۔ منفعت خان اپنے نامور باپ سےدانائی اور شجاعت میں کسی طرح کم نہیں تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک لکھا پڑھا بلکہ عالم و فاضل شخص تھا۔ منفعت خان اپنی فراست، شجاعت ، فصاحت،علم و فضل اور فیاضی کے سبب اپنی زندگی میں ہی ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ اس بے بدل شخص نے تین حکمرانوں کا دور دیکھا۔ امان الملک کے دور میں اس کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے مضفر خان کو ان کا منصب دیا گیا۔ وزیر مظفر خان شاید اپنے نامور باپ کی دیگر خصوصیات کا اس قدر حامل نہ ہو لیکن علم و فضل میں اس سے یقینا آگے تھا۔ وہ فارسی کا بلند پایہ شاعر تھا۔ اس نے حکمران خاندان کی تاریخ کو منظوم کیا۔ مظفر خان کے بعد اگرچہ وزارت کا عہدہ ان کے بیٹے معظم خان کو دیا گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اس خاندان کا زوال شروع ہو گیا۔ امان الملک کی وفات کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی کے زمانے میں بہت سے خاندان عروج و زوال کا شکار ہوئے۔ وزیر معظم خان شہزادہ افضل ا لملک کے حامیوں میں سے ایک تھا۔ افضل الملک کے قتل کے بعد معظم خان کو اعزازات اور جاگیروں سے محروم کر دیا گیا۔ اس کے بعد پھر یہ خاندان سنبھل نہ سکا۔
امان الملک کے دور ہی میں ایک اور شخص جو وزیر کہلایا وہ عنایت خان تھا۔ ان کا تعلق جغور کے میراثیے خاندان سے تھا۔ اس خاندان جد اعلیٰ بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے کٹور ثانی کا ساتھ دے کر اعزاز حاصل کیا تھا۔ عنایت خان ایک بہت ہی ذہین اور جہاندیدہ شخص تھا۔ اس وجہ اس اسے عموما ریاست کے خارجہ تعلقات کے سلسلے میں ذمے داریاں دی جاتی تھیں۔ ان کا اس سلسلے میں جموں دربار میں آنا جانا رہتا تھا۔ وہ انگریزی حکومت کے ساتھ چترال کے تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھا۔ اسے صحیح معنوں میں ریاست کا وزیر خارجہ کہا جا سکتا ہے۔ عنایت خان کے بھائی وفادار خان کو مہتر نظام الملک کے وزیر کی حیثیت حاصل تھی۔ خانہ جنگی کے دور میں وفادار خان کو بہت اہمیت حاصل ہوئی کیونکہ ان کے انگریزوں کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور اپنے بڑے بھائی کی طرح وہ بھی بیرونی تعلقات کے شعبے میں زیادہ ماہر تھے۔ 1895 کے محاصرے کے بعدبننے والے سیٹ اپ میں وزیر عنایت خان کوسہ رکنی اعلیٰ انتظامی کونسل کا رکن بنایا گیا۔ کونسل کے اہم ترین رکن کی حیثیت سے ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کی وزارت برقرار رہی۔ 1997 میں کونسل کے ایک رکن اقسقال فتح علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کی جگہ وفادار خان کو دی گئی۔ 1898 میں مہتر شجاع الملک اور کونسل کے درمیاں ناچاقی کے بعد عملا اس کا وجود ختم ہوگیا لیکن وزیر عنایت خان کے بعد وزیر کے نام سے کسی کو نہیں پکارا گیا۔ 1905 میں ایک بڑی انتظامی تبدیلی یہ کی گئی کہ اتالیق بہادر شاہ کو موڑکھو سے بلا کر مرکزی اتالیق کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ اتالیق کا عہدہ روایتی طور پر انتظامی سے زیادہ فوجی امور سے زیادہ تعلق رکھتا تھا لیکن اتایق بہادر شاہ اپنی انتطامی صلاحیتوں کی بنا پر جلد ہی مہتر کا دست راست بلکہ ریاست کا منتظم اعلیٰ بن گیا۔ وزیر منفعت خان کے بعد وہ پہلا شخص تھا جسے ملکی سطح پر بلا شرکت غیرےاس قدر اہمیت حاصل ہو گئی۔ اگرچہ انہیں وزیر کے نام سے کبھی نہیں پکارا گیا لیکن انہیں حقیقی معنوں میں ریاست کے وزیر اعظم کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی یہ حیثیت 1921 میں انکی وفات برقرار رہی۔ ان کے بعد ان کی جگہ ان کے بیٹے سرفراز شاہ کو ملی جو تقریبا انہی جیسے اختیارات کا حامل تھا۔ 1936 میں محمد ناصر الملک تخت پر بیٹھے تو بہت سی اصلاحات کا آغاز ہوا۔ انتظامی شعبے میں انہوں نے باقاعدہ محکمے قائم کرکے ہر محکمے کے لیے الگ الگ وزیر مقرر کیا۔ جیسے وزیر تجارت، وزیر تعمیرات، وزارت مالیات وغیرہ۔ ان سب کے اوپر مہتر نے چچا دلارام خان کو وزیر اعظم کا عہدہ دیا۔ اگرچہ بعد میں دیگر وزارتوں میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، لیکن دلارام خان 1949 تک اس عہدے پر برقرار رہے۔ 1949 میں ریاست میں مسلسل عدم استحکام کے سبب بنیادی انتظامی تبدیلیاں کی گئیں۔ ایک تین رکنی عبوری انتظامی بورڈ تشکیل دیا گیا جو پولیٹکل ایجنٹ کی ماتحتی میں کام کرتی تھی۔ اس کے ارکان کو مختلف محکموں کا انچارج بنادیا گیا۔ اس دن سے عملا ریاست کی انتظامیہ پولیٹکل ایجنٹ کے ہاتھ میں اگئی۔ 1953 میں ریاست کا نیا آئین نافذ کیا گیا، جس کے تحت طے پایا کہ وزیر اعظم انتظامی سربراہ ہوگا جس کا تقرر مہتر چترال گورنر جنرل پاکستان کے مشورے سے کریں گے۔ یہ تو آئین کے لکھے ہوئے الفاظ تھے۔ ان الفاظ کا مطلب عملی طور پر یہ لیا گیا کہ پولیٹکل ایجنٹ ہی بحیثیت عہدہ ریاست کے وزیر اعظم ہونگے۔ چنانچہ 1953سے لیکر 1969 میں ریاست کی مکمل تحلیل تک پولیٹکل ایجنٹ چترال کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اس عرصے کے دوران مہتر چترال کی حیثیت ایک رسمی سربراہ مملکت سے زیادہ نہ تھی۔
(تحریر: ممتاز حسین)
<= BACK
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com