<= Back to ARTICLES Page

چترال میں اردو زبان و ادب

فضل رقیب- ریسرچ سکالر، ایم ۔فل، کراچی یونیورسٹی

چترال میں اردو اگرچہ ایک نئی زبان سمجھی جاتی ہے، لیکن درحقیقت اردو کا واسطہ چترال سے اس سے کہیں زیادہ پرانا ہے جتنا عموما سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ریاست چترال کی علمی اور سرکاری زبان ایک طویل عرصے تک فارسی رہی ہے۔ اس عرصے میں یہاں فارسی کے کئی شعراء اور ادیب پیدا ہوئے، جنہون نے نظم و نثر میں خاطر خواہ تخلیقی کام کیا۔ اگرچہ بلحاظ حجم یہ کام اتنا زیادہ نہیں تاہم معیار کے لحاظ سے اس کی اہمیت کسی اور علاقے کے ادب سے کم نہیں۔ اس کی مثال میں ہم محمد سیر کے دیوان اور ناصرالملک کی 'صحیفۃ التکوین' کو پیش کر سکتے ہیں۔
فارسی کا چلن چترال میں برصعیر کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ دیر تک رہا، کیونکہ اس علاقے کے روابط جنوب کی نسبت شمال کے فارسی بولنے والے علاقوں سے زیادہ تھے۔ تاہم وقت گذرنے کے ساتھ جنوب کی طرف بھی امد و رفت بڑھنے لگی اور اس تبدیلی کے سماجی عواقب میں لسانی اثرات بہت نمایاں ہیں۔ اس لسانی تبدیلی کے عمل کے دوران رفتہ رفتہ اردو نے فارسی کی جگہ لے لی۔
ہندوستان اور چترال کے درمیان روابط کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ قدیم ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ اس قسم کی شہادتیں موجود ہیں کہ قدیم زمانے سے دونوں علاقوں کے درمیان سیاسی، ثقافتی، علمی اور تجارتی رشتے موجود تھے۔ اس تناظر میں تاریخی مثالیں موجود ہیں مثلاً چترال کے حکمراں خاندان کے جد اعلیٰ بابا ایوب کے بارے میں کہا جاتا ہے کے وہ ہندوستان کے بادشاہ بابر کے پوتوں میں سے تھے۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ وہ مرزا کامران کے بیٹے تھے۔ اس روایت کو تقویت اس طرح ملتی ہے کہ اس خاندان کے یہاں حکومت قائم کرنے کے کچھ عرصے بعد جب اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو اس کے ایک رکن سنگین علی ثانی نے حصول مدد کے لیے ہندوستان کے مغل دربار کا رخ کیا۔ عجیب بات ہے کہ سنگین علی اور اس کے ساتھ جانے والے دیگر اصحاب یعنی اتالیق محمد شکور، مرزا شوکت اور محمد صفا سب اہل علم اور شاعر تھے۔ یہ لوگ کئی برس مغل دربار سے وابستہ رہے۔ غالب گمان ہے یہ لوگ دربار کی زبان یعنی اردوئے معلےٰ سیکھ لی ہوگی۔ بالاخر سنگین علی مغل دربار کی مالی امداد سے چترال کا تخت و تاج دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ظاہر ہے ان لوگوں کے ساتھ لسانی اثرات بھی یہاں پہنچے ہونگے۔
سنگین علی کا سفر ہندوستان اس علاقے کی تاریخ کا اہم ترین موڑ ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں سابق حکمرانوں کے اس سلسلے کامکمل طور پر خاتمہ ہوا جسے 'رئیس' خاندان کہا جاتا ہے اور نئے حکمران خاندان کا اقتدار صحیح معنوں میں قائم ہوگیا۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ہندوستان کے ساتھ روابط مستحکم ہوگئے۔ مہترمحترم شاہ کٹور ثانی کے دور (انیسویں صدی کے ابتدا) میں قائم ہونے والے سیاسی استحکام کے نتیجے میں، ہندوستان سے کئی علماء چترال اکر دربار سے وابستہ ہوگئے۔ ان میں سے ملا عباس شاہ، ملا کمال شاہ اور ملا سعد الدین کے نام قابل ذکر ہیں۔ اسی زمانے میں جب ہندوستان سے حضرت سید احمد شہید کی قیادت میں جہاد کی تحریک شروع ہوئی اور اس کا مرکز سرحدی علاقے میں قائم ہوگیا تو ان کے رابطے چترال کے حکمرانوں سے بھی بن گئے۔ مجاہدیں کا ایک وفد شاہ کٹور کے پاس بھی آیا۔ لیکن شمالی چترال اور یسین کے مہتر سلیمان شاہ کے ساتھ مجاہدین کے رابطے بہت اہمیت کے حامل تھے۔ ان دونوں کے درمیان بہت سے وفود، خطوط اور تحائف کا تبادلہ ہوا۔ مشترکہ جہادی کوششوں کا ایک منصوبہ بنایا گیا۔ اس دوران سید صاحب کی شادی بھی ایک چترالی سید زادی سے ہوئی۔
چترال مین استحکام کا ایک اور دور امان الملک کے دور حکومت (1856 تا 1892) کے دوران گذرا۔ اس زمانے میں ریاست کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا اور یہ ایک چھوٹی مگر مضبوط بادشاہت کے روپ میں ابھرا۔ اسی دور میں امیر کابل کے جارحانہ عزائم کی وجہ سے چترال کو پہلے مہاراجہ کشمیر اور پھر انگریزی حکومت سے رابطے بڑھانے پڑے۔ اس سلسلے میں دونوں طرف سے بے شمار وفود کا تبادلہ ہوا۔ چترال کے لوگوں کو جلد ہی معلوم ہو گیا کہ ان نئے رابطوں کے لیے اردو سیکھنا پڑے گا۔ امان الملک کے آخری دنوں میں یہاں انگریزی حکومت کے اہلکار تعینات کیے گئے، جن کے ساتھ رابطے کا واحد زریعہ اردو تھی۔
امان الملک کی وفات کے بعد کا دور انتشار اور خانہ جنگی کا تھا۔ اس کے نتیجے میں یہاں انگریزی مداخلت بڑھنے لگی۔ مہتر نظام الملک کے دور میں یہاں انگریزی فوجی دستے تعینات کیے گئے۔ یہ دستے انگریز افسروں اور ہندوستانی سپاہیوں پر مشتمل تھے۔ 1895 کی جنگ کے نتیجے میں یہاں انگریزی بالادستی پوری طرح قائم ہو گئی۔ یہاں پر نہ صرف انگریز پولیٹکل ایجنٹ اور اس کا ہندوتانی عملہ مستقل طور پر قیام پذیر ہوگیا بلکہ برٹش انڈین ارمی کی تین پلٹنیں بھی دروش اور چترال میں متعین کر دی گئیں۔ یہ افواج 1942 تک یہاں رہیں اور یہاں اردو کی ترویج میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ کیونکہ مقامی لوگوں کے ساتھ ان کی گفتگو کا ذریعہ اردو ہی تھا۔ اسی زمانے میں چترال شمال سے مکمل طور پر کٹ کر جنوب سے جڑ گیا۔ جنوب سے تجارت میں بہت اضافہ ہوا۔ بہت سے سکھ اور ہندو تاجر یہاں پر آکر دوکانداری کرنے لگے۔ آزادی کے وقت چترال اور دروش کے بازاروں کی تجارت کا ایک بڑا حصہ انہی سکھوں اور ہندووں کے ہاتھ میں تھا۔ 1947 میں یہ لوگ انڈیا چلے گئے اور صرف ایک خاندان جو مسلمان ہوگیا تھا یہاں رہ گیا۔
انیسویں صدی کے اواخر میں اسمٰعییلیوں کے روحانی پیشوا آغا خان ایران سے ہندوستان منتقل ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں چترال کی کثیر اسمٰعیلی آبادی کا مذہبی مرکز بمبئی میں قائم ہوگیا۔ اس وجہ سے یہاں کے لوگوں کی کثیر تعداد بمبئی جانے لگی اور اسمٰعیلی مبلعین بھی چترال آنے لگے۔ سر آغا خان کے یورپ منتقل ہونے کے بعد بمبئی کی یہ حیثیت تو ختم ہوگئی لیکن پاکستانی اسمٰعیلیوں کا مرکز کراچی بن گیا اور ساتھ ہی ہجرت کےنتیجے میں کراچی ایک اردو بولنے والا شہر بن گیا۔ معاشی اہمیت کے علاوہ اسمٰعیلی فیکٹر نے بھی چترال اور کراچی کے درمیان امد و رفت بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا- کراچی اور بمبئی کے چترال کے رابطوں نے دیگر سماجی اثرات کے علاوہ گہرے لسانی نتائج بھی پیدا کیے۔ اس کے نتیجا میں چترال میں اردو بولنے کی روایت نہایت مستحکم ہوگئی۔
چترال میں اردو کی سرکاری سطح پر سرپرستی انگریزوں کے آنے کے بعد شروع ہوئی۔ یہاں پر مدارس میں اردو کی تدریس پہلی دفعہ امان الملک کے دور میں ہوئی جب شاہی مدرسے میں اردو کو نصاب کا حصہ بنایا گیا۔1936 میں مہتر ناصر الملک نے چترال کے باقاعدہ سکول کی بنیاد رکھی۔ اس سکول میں وہی نصاب رائج ہوا جو ہندوستان کے سکولوں میں پڑہائی جاتی تحھی اور جس میں اردو کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اردو قومی زبان کی حیثیت سے سکولوں میں ذریعہ تدریس کے طور پر متعارف کرائی گئی۔یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر دیگر علاقوں کے برعکس چترال میں مقامی زبان کو پرائمری سطح سے اوپر کلاس روم میں کبھی استعمال نہیں کیاگیا۔ جس کی بنا پر چترالی طالبعلم اور اساتذہ اردو بولنے کے سلسلے میں اردگردکے علاقوں کی نسبت زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں۔
چترال میں اردو ادب کی تخلیق کے آغاز کا شہزادہ شہزادہ حسام الملک کو جاتا ہے۔ وہ چترالی کلچر پر کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے دیگر زبانوں کے علاوہ اردو کو بھی زریعہ اظہار بنایا.ان کے ساتھ مولوی محمد وزیر، شہزادہ صمصام الملک، جعفر علی شاہ، غلام مرتضیٰ پروفیسر اسرار الدین اور شہزادہ فخر الملک وغیرہ نے اردو میں لکھا۔ ستر کی دہائی میں یہاں اردو لکھنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی۔ مختلف ادبی اصناف میں لکھنے والوں میں ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، وقار احمد، پروفیسر ممتاز حسین، پروفیسر بادشاہ منیر بخاری، مولانا محمد شفیع، محمد عرفان عرفان، محمد نقیب اللہ رازی،منظور قادراور خواتین میں گلشاد انصاری کے نام شامل ہیں۔
چترال میں اردو شاعری کی روایت کا اغاز امیر گل سے ہوتا ہے۔ دیگر شعراء میں امین الرحمٰن چعتائی، ولی زار خان ولی، گل نواز خان خاکی، صآلح ولی آزاد، میر سبحان الدین، رحمت عزیز خان، اور خواتین میں اور میجر سعید کے نام قابل ذکر ہیں۔ جدید دور کے شعراء میں سے صالح ولی آزاد،میر سبحان الدین، شاہ صبا، رحمت عزیز، شاہد مشہود، رحیمہ ناز اور بشارت جبین کے شعری مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہوئے ہیں۔ چترال میں اردو کے فروع کے لیے کئی تنظیمیں سرگرم عمل رہی ہیں۔ انجمن ترقیء کھوار، چترال سٹوڈنٹس ایسوسیشن پشاور، ادارہء علم و فن،انجمن فروع اردو چترال، حلقہء ارباب ذوق چترال وغیرہ نے قابل قدر کام کیا۔ چترال کے اندر اور باہر چترالیوں کے قلم سے کئی اردو رسالے عرصہ دراز سے نکلتے رہے ہیں۔ ان میں سے ہفت روزہ تریچمیر، تریچمیر میگزین، ہفت روزہ ہندوکش، مجلہ بزم کھوار حلقہء دروش، ماہنامہ ہمکلام، ماہنامہ قلم کار، پامیر میگزین، ہفت روزہ اواز چترال، ماہنامہ شندور، اخبار چترال ٹائمز، ماہنامہ کھوار چاپ، ماہنامہ نوائے چترال، اور طلبہ مجلہ پنار قابل ذکر ہیں۔
MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com