Back

چترال کے کھو لوگوں میں شامانزم کی باقیات

ممتاز حسین
08.01.2022

شامانزم Shamanism کچھ ملتے جلتے نیم مذہبی عقاید اور اعمال کے مجموعے کو کہتے ہیں، جس کی رو سے معاشرے میں کچھ افراد قدرتی طور پر ایسی صلاحیت رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ موسیقی، یا دھونی کے زیر اثر وجد یا بے ہوشی کی کیفیت میں جاتے ہیں اور اس دوران ان کا غیر مرئی طاقتوں سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ان طاقتوں کی مدد سے پیش گوئیاں کرتے ہیں یا مسائل کا حل بتاتے ہیں۔ شامان کی اصطلاح شمالی ایشیاء سے آئی ہے جہاں اس کے معنی "دیکھنے والا" کے ہیں۔ شمالی چین، منگولیا، سائیبیریا اور ترکستان میں اس جیسے عقاید اور اعمال کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ اسی سے ملتے جلتے اعمال کا مشاہدہ امریکہ کے قدیم باشندوں اور افریقہ میں بھی کیا گیا ہے۔ شامانزم کے اعمال بنیادی طور پر hunter gatherer قسم کے لوگوں میں پروان چڑھتے ہیں جن کے مذہبی تصورات مظاہر پرستی پر مبنی ہوتے ہیں۔ متمدن دنیا، خصوصاً بڑے اور منظم مذاہب کے پیرو کاروں میں اس کا رواج تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم کچھ علاقوں میں لوگوں میں تبدیلی مذہب اور تمدن کے فروع کے باوجود سابق ثقافتوں کے اثرات کسی حد تک باقی رہے ہیں۔ ان اثرات میں سے شامانزم کے اجزاء بھی شامل ہیں۔

ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کی وادیوں میں شامانزم جیسے اعمال پر کافی وسیع پیمانے پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ مغرب میں نورستان سے لے کر مشرق میں لداخ تک شامانزم کے اثرات ملتے ہیں۔ موجودہ دور میں اس خطے میں صرف ایک چھوٹا سا گروہ کلاش اپنے قدیم مذہب پر قائم ہے اور ان کے ہاں دیگر ثقافتی اعمال و تصورات کے ساتھ شامانی اعمال پر بھی بدستور عمل ہوتا ہے۔ ان کی زبان میں شامان جیسی صلاحیتوں والے فرد کو دیہار کہتے ہیں۔ دوسری طرف گلگت کے بیشتر حصوں میں اس قسم کے اعمال کم از کم ماضی قریب تک موجود رہے ہیں جہاں شامان کو دایال یا بیٹان کہتے ہیں۔ چترال کے کھوار بولنے والے علاقوں میں اس وقت دیہار، بیٹان یا داینیال نام سے شامانیت کے اعمال کرنے والوں کا وجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں بھی یہ علاقہ ان تصورات اور اعمال سے خالی رہا ہے، اور اگر اس قسم کے کچھ تصورات پہلے یہاں رہے ہیں تو کیا اب ان کے کچھ اثرات دریافت کیے جا سکتے ہیں؟

کھو بنیادی طور پر انڈو آرئین لوگ ہیں۔ لسانی طور پر ان کا قریب ترین گروپ کلاش ہے جس کے چند ہزار افراد اپنے اصل مذہب اور کلچر کے ساتھ جنوب مغربی چترال میں باقی ہیں۔ باقی کلاش تبدیلی مذہب کے نتیجے میں اپنی ثقافتی شناخت کھو کر کھو لوگوں میں گھل مل گئے ہیں۔ چترال کے موجودہ کھو لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد ایسی ہے جو ایک یا دو صدی قبل کلاش کلچر اور مذہب کے حامل تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی تقریباً یقینی ہے کہ کھو اور کلاش چترال کی وادی میں ایک ہی گروہ کے طور پر آئے اور چترال کے مختلف حصوں میں رہنے کی وجہ سے ان میں ثقافتی اور لسانی فرق پیدا ہوا۔ کلاش کے بعد کھو لوگ کوہستانی اور شنا بولنے والے گروہوں کے قریب ہیں۔ ان میں سے شنا بولنے والوں میں شامانیت کے اعمال اور تصورات ماضی قریب تک عام تھے اور اب بھی ان کے باقیات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے اعمال کا کوہستانی لوگوں میں بھی ماضی میں موجود ہونا بعید از قیاس نہیں۔ کھو لوگوں کا ایک اور ہمسایہ گروہ بروشسکی بولنے والوں کا ہے جو نسلی اور لسانی طور پر تو کھو لوگوں سے بہت مختلف ہیں لیکن جغرافیائی قربت کی وجہ سے دونوں میں کافی اشتراک پیدا ہوگیا ہے۔ بروشسسکی بولنے والوں میں شامانیت کا رواج اس خطے کے گروہوں میں سب سے زیادہ رہا ہے اور اب بھی اس پر عمل کی اطلاعات ملتی ہیں۔

شنا بولنے والوں میں شامان کو دایال، بروشسکی میں بیٹان اور کلاش اسے دیہار کہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر داردی زبانوں (بشمول کھوار) میں اس وقت ایسا کوئی مخصوص لفظ نہیں جو شامان کے لیے استعمال ہو سکے۔ غالباً ماضی میں ان گروہوں میں بھی شامانیت کے تصورات و اعمال عام تھے اور اس سے متعلق لوگوں کے لیے مخصوص الفاظ بھی ہونگے۔ لیکن اس وقت جنوب اور شمال سے آنے والے مذہبی اور ثقافتی اترات نے ان کو دھندلا دیا ہے۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان گروہوں میں ماضی میں ایسے کوئی تصورات اور اعمال موجود نہیں ہونگے، یا موجود رہے بھی ہوں تو اب مٹ چکے ہیں۔ لیکن قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شامانیت سے متعلق تصورات اور اعمال کسی حد تک اب بھی اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں اور بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ ان کو فروع مل رہا ہے۔ یہ اثرات مذہبی اور ثفافتی اثرات کے نتیجے میں اپنی شکل تبدیل کرکے مختلف صورتوں مِیں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں پر کھو معاشرے میں شامانیت کے باقیات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کھو لوگوں میں یہ تصور وسیع پیمانے پر موجود ہے کہ غیر مرئی مخلوقات (جن، پری، بلا، گور، جشتان وغیرہ ناموں سے) انسانوں کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں، ان کے لیے مسائل پیدا کرتی ہیں اور کچھ لوگوں کو مدد بہم پہنچاتی ہیں۔ ان تمام ناموں کے ساتھ مخصوص تصورات وابستہ ہیں۔ تاہم پری کا تصور زیادہ واضح اور عام ہے۔ یہ خوبصورت خواتین کی شکل میں ہوتی ہیں، بلند پہاڑوں پر رہتی ہیں اور انسانوں کے لیے عموماً ہمدردانہ جذبات رکھتی ہیں۔ پہاڑوں پر ان کی حکمرانی ہوتی ہے اور بہت اونچے پہاڑ جیسے تریچمیر پر ان کی ملکائیں رہتی ہیں۔ ان پہاڑوں پر جانے کے لیے انسانوں کو پریوں کی رضامندی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ بلندیوں کے پاک اور پستیوں کے ناپاک ہونے کا تصور اس خطے کے دیگر گروہوں کی طرح کھو لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ پریوں کو بلندیوں کے صاف ماحول کا پاسبان سمجھا جاتا ہے اور انسانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہاڑوں میں جانے سے پہلے پریوں کی اجازت حاصل کریں، ان کو راضی کرنے کے اعمال کریں اور وہاں کے ماحول میں کسی قسم کی ناپاکی پیدا نہ کریں۔ کھوار میں پاکی ناپاکی کے اس تضاد کو اوشنیرو (پاک) اور څیٹو (ناپاک) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ دیگر گروہوں کی طرح کھو لوگوں میں پالتو جانوروں میں سے بعض کی پاکی اور دیگر کی ناپاکی کا واضح تصور نہیں، لیکن کچھ تصورات اس طرف ضرور اشارہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ واہمہ کہ گائے کے خشک اپلے سے کسی پری کو ماریں تو وہ آپ کی مطیع ہو جائے گی۔ اسی طرح کھلیاں میں غلے کا ڈھیر بنا کر اس کے اوپر ایک اُپلا رکھ دیتے تھے تاکہ پریاں وغیرہ اس کے قریب نہ آئیں۔ پہاڑوں پر رہنے والی پریوں کو ݰاوان کہا جاتا ہے اور انہیں احتراماً نان (امی) کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ غالباً ݰاوان ایک قدیم نام ہے اور پری نام فارسی اثرات کے تحت بعد میں ݰاوان کے لیے مروج ہو گیا ہوگا۔ پریوں (یا دوسری ایسی مخلوقات) کو راضی کرنے کے عمل کو ݰینݯیک کہتے ہیں۔ یہ عمل کچھ مخصوص الفاظ کی ادا کرکے، مخصوص مقامات پر کچھ نذرانہ پیش کرکے یا آگ میں گھی یا آٹا ڈال کرکیا جاتا ہے۔

پریوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ بعض اوقات انسانوں کو چمٹ جاتی ہیں۔ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ کچھ صورتوں میں انسان شدید ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے، چیختا چلاتا ہے، اپنے آپ کو نوچتا ہے اور قریب آنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بصورت دیگر وہ بات چیت سے قاصر ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال کو بوہتونی (ڈر) اور ایسے فرد کو بوہتونی ژونی (جس کو ڈر لاحق ہو) کہا جاتا ہے۔ جب شروع میں کسی فرد پر پریوں کے آنے کا شک ہو تو اسے کسی دم دعا کرنے والے یا بوہتواک کو دکھایا جاتا ہے۔ دم دعا کرنے والا اپنی تعویذات کی کتابوں اور بوہتواک اپنے ساتھ رابطے میں رہنے والی پریوں کے مشورے سے اس کی حالت کا تعین کرتا ہے۔ بالعموم ان کی تشخیص یہ ہوتی ہے کہ اس سے پری چمٹ چکی ہے۔ تشخیص کے عمل کو کھوار میں دیمیک کہتے ہیں۔ عامل معمول کو سامنے بٹھا کر اسے دھونی دیتا ہے یا بغیر دھونی کے کچھ کلمات پڑھتا ہے۔ وہ اس سے سوالات کرتا ہے کہ تم کون ہو اور اس بندے سے کیوں چمٹے ہو۔ بعض اوقات وہ معمول سے کچھ کہلوانے میں ناکام رہتا ہے لیکن اکثر معمول بول پڑتا ہے۔ وہ پری کے طور اپنے اس سے چمٹنے کی کوئی کہانی بیان کرتا ہے، مثلاً یہ کہ کہیں رات کو اکیلے میں باہر نکلا تھا کہ میں اس سے چمٹ گیا وغیرہ۔ عامل پری کو حکم دیتا ہے کہ وہ متاثرہ بندے کو چھوڑ کر چلی جائے۔ اس کے لیے وہ دعائیں پڑھتا ہے، معمول کو دھونی دیتا ہے اور بعض اوقات بدنی طور پر تشدد کرتا ہے۔ کبھی کبھار پری جانے پر راضی ہوتی ہے اور معمول آئیندہ کے لیے ایسی علامات ظاہر نہیں کرتا۔ مگر اکثر کیسوں میں کچھ عرصہ بعد وہ کیفیت پھر سے طاری ہو جاتی ہے۔ کچھ متاثرہ افراد میں شدید علامات شدید اور غیر معمولی ہوتی ہیں یا وہ دیمیک پر مناسب رد عمل ظاہر نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں کہا جاتا ہے کہ ان سے چمٹنے والی چیز عام پری نہیں۔ عامل اسے مختلف نام دیتے ہیں جیسے کافر پری، گور، اور معمول کے نہ بولنے کی صورت میں گونگی پری۔

جن لوگوں میں پری آنے کا عمل جاری رہتا ہے ان میں سے بعض آگے چل کر بوہتواک (لفظی معنی ڈرنے والا) بن جاتے ہیں۔ لیکن کچھ افراد اس مرحلے سے گزرے بغیر بھی بوہتواک بن سکتے ہیں، یعنی ان کی علامات ایسی شدید نہیں ہوتیں کہ اسے کسی بوہتواک کے پاس لے جانا پڑے۔ بوہتونی ژونی کے برعکس بوہتواک کے ساتھ رابطے میں رہنے والی پری اس کے لیے مفید رویہ رکھتی ہے۔ وہ اسےخبریں بہم پہنچاتی ہے اور مختلف کاموں میں اس کی مدد کرتی ہے۔ لیکن بوہتونی ژونی اور بوہتواک کے درمیان فرق اتنا واضح نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کسی بندے کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بوہتواک ہے یا بوہتونی ژونی۔ کچھ افراد ابتدائی طور پر پری چمٹنے کی شدید صورت کی علامات کا سامنا کرتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اسے آرام آجاتا ہے لیکن کبھی کبھار پریاں اس پر آتی ہیں اور اس کی زبان میں بولتی ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ شروع ہی سے پریوں کے آنے کی علامات مثبت ہوں اور اسے شدید علامات کا کبھی سامنا نہ کرنا پڑے۔

بوہتواک پری سے رابطے میں ہر وقت نہیں ہوتا بلکہ اچانک اس پر یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ تاہم یہ کیفیت وہ کوشش کرکے بھی اپنے پر طاری کر سکتا ہے۔ خصوصآً وہ لوگ جو اس کام کو پیشہ بناتے ہیں۔ جب کوئی گاہک مسئلہ لے کر اس کے پاس آتا ہے تو وہ آگ میں کسی چیز کی دھونی ڈال کر یا ویسے ہی اپنے اوپر کیفیت طاری کر لیتا ہے۔ اس عمل کو پری خامیئک یا بوہتوئیک کہتے ہیں۔ بوہتونی ژونی اور بوہتواک مرد بھی ہو سکتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن عموماً عورتوں میں یہ رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ بوہتواک خاتون کو احتراماً نان (ماں) کہا جاتا ہے۔

بوہتواک کے پاس لوگ ہر قسم کے مسائل لے کر جاتے ہیں۔بیماریاں جن کے بارے میں شک ہو کہ ان کا کوئی فزیکل سبب نہیں، جادو ٹونے کا شک، چوری چکاری، مالی مشکلات وغیرہ۔ عموماً بوہتواک کی تشخیص جادو ٹونا ہی ہوتا ہے۔ کچھ عامل سائل کو بتاتے ہیں کہ جادو کے تعویذ گھنڈے کہاں دبائے گئے ہیں۔ ایسے بھی عامل ہیں جو موقع پر ہی کچھ سائل کے ہاتھ میں پکڑا کر کہتے ہیں کہ پری یہ سب کچھ نکال لائی ہے۔

کھو لوگوں کے پری خامیئک کے عمل میں بوروشہ لوگوں کے بیٹان کے طرز عمل کی جھلک نظر آتی ہے۔ بوہتواک عموماً دھونی کے زیر اثر پریوں کے ساتھ رابطے میں چلا جاتا ہے۔ وہ بیٹان کی طرح رقص تو نہیں کرتا لیکن اس کی طرح نیم بے ہوشی کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کے لیے کوئی موسیقی نہیں بجائی جاتی اور وہ پری کی آواز ڈھول یا بانسری میں نہیں سنتا بلکہ پری اسی کی زبان سے بولتی ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ اس دوراں بوہتواک کی آواز نارمل نہیں رہتی۔ بوہتواک اس عمل کے شروع میں ایک ہیجانی کیفیت سے گزرتا ہے جیسے کسی پر دورہ (fit) پڑتا ہے۔ لیکن پریوں کے اس کے اندر داخل ہونے کے بعد اس کا جسم پرسکون ہوجاتا ہے۔ جب پریاں اس کے جسم سے نکلنے والی ہوتی ہیں تو اس پر یہ ہیجانی کیفیت ایک لمحے کے لیے دوبارہ آتی ہے جس کے بعد وہ اپنی معمول کی حالت میں آکر گفتگو کرنے لگتا ہے ۔ خود بروشہ لوگوں کے ہاں اگر چہ بیٹان پائے جاتے ہیں، تاہم ان کے اور بوہتواک کے درمیاں فرق زیادہ واضح نہیں رہا۔ آج کل یسین میں بیٹان تقریباً تمام خواتین ہوتی ہیں جنہیں "موملاس" کہا جاتا ہے۔ پریوں کے لیے "گن شوان" کا لفظ استعمال عام استعمال ہوتا ہے۔ بروشہ لوگ پری(گن شوان) کو احتراماً "ننی" (جمع "ننیشترو") کہتے ہیں۔ غالباً کھوار میں لفظ "ݰاوان" اور اس کے لیے احترماً نن (ماں) کہنے کا رواج بروشہ لوگوں سے آیا ہے۔

بوہتوئیک کے عمل کی ایک خصوصیت اس کا غیر مذہبی ہونا ہے۔ یہ لوگ ناخواندہ یا کم لکھے پڑھے ہوتے ہیں۔ خصوصاً مذہبی تعلیم والے لوگ اس کام میں نہیں پڑتے۔ یہاں مسلمانوں کے جتنے فرقے ہیں، ان کے مذہبی پیشوا ان کاموں کو بالعموم اچھا نہیں سمجھتے۔ جو مذہبی لوگ دم دعا کرتے بھی ہیں، ان کا طریقہ کار بوہتواک سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بوہتوئیک کا عمل یہاں قبل از اسلام دور کے کلچر سے تعلق رکھتا ہے اور تعویذات کا کام بعد میں تبدیلی مذہب کے نتیجے میں رائج ہوا۔

اس علاقے کے لوگوں میں اسلام قبول کرنے اور جدید رجحانات کے فروع کے ساتھ شامانیت کے طور طریقوں میں تبدیلیاں آئی ہیں لیکن یہ ختم نہیں ہوئے۔ مثلاً قدیم لوگوں کے مافوق الفطرت عناصر (جنہیں کسی حد تک ان لوگوں کے دیوی دیوتا کہا جاسکتا ہے) کے لیے نئے نام رکھے گئے۔ ان میں پری کا نام خصوصاً قابل ذکر ہے۔ یہ فارسی لفظ ہے جس کا تصور پروں کے ساتھ پرواز کرنے والی خوبصورت عورت کا ہے۔ کھو لوگوں نے یہ نام اپنے ہاں رائج نام ݰاوان کی جگہ اختیار کیا۔ پھر پری کے انسانوں کے ساتھ تعامل کو بھی جدید تصورات سے ہم آہنگ بنایا گیا۔ جیسے حالیہ برسوں کے دوران کئی ایسے بوہتواک سامنے آئے جن کے ساتھ ایسی پری تھی جو امراض کی جدید انداز میں تشخیص کرتی ہے بلکہ کچھ کا دعوےٰ ہے کہ ان کی پری پیچیدہ آپریشن جیسے دل کا بائی پاس کرتی ہے۔

آخر میں یہ سوال کہ اس خطے میں شامانیت انڈو آرئیں لوگوں کے ساتھ جنوب سے آئی یا انہیں یہاں آکر اس سے واسطہ پڑا؟ اس سلسلے میں میرا رجحان اس طرف ہے کہ شامانیت کے تصورات اور اعمال یہاں جنوب سے نہیں بلکہ شمال سے آئے اور انڈو آرئیں گروہوں کے یہاں پہنچنے سے پہلے یہاں کے مقامی لوگوں میں مروج ہوچکے تھے۔ انڈو آرئین گروہوں نے یہ تصورات قدیم مقامی لوگوں سے لیےہونگے جن کی باقیات بروشسکی بولنے والے ہیں۔ شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بروشہ لوگ ایک زمانے میں اپنے موجودہ وطن (ہنزہ نگر اور یسین) سے باہر ایک وسیع علاقے میں بستے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شامانی اعمال سب سے آخر تک ہنزہ نگر کے بروشہ لوگوں میں موجود رہے۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com