Back

راج میر کہاں جائے گا؟ 

گمنام کوہستانی

یہ گیارھویں صدی عیسوی ہے۔ سوات اور دیر کی زیریں وادیوں میں ہر طرف افراتفری کا سماں ہے۔ محمود غزنوی کی فوج نے اس علاقے پر حملہ کیا ہے۔ مقامی لوگوں کو شکست ہوچکی ہے اور ان کا مضبوط قلعہ حملہ آوروں کے قبضے میں جا چکا ہے۔ ان کی فوج کا صفایا ہو چکا ہے۔ غزنوی کے سپہ سالار پیر خوشحال کا حکم ہے کہ ہر کافر کا سر اُڑا دیا جائے۔ عام سپاہی لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتانے کے بجائے تلوار لہرا کر اسلام قبول کرنے کا کہہ رہا ہے اور مقامی لوگوں کو علم نہیں کہ اسلام کیا ہے اور اس کے قبول کرنے کا کیا مطلب ہے۔ غزنوی کے لشکر جرار کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے، اس لئے جو بھاگ سکتے ہیں وہ بھاگ رہے ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہندوکش کے برف پوش پہاڑوں کے طرف کوچ کر رہے ہیں۔ ان میں راج میر بھی ہے۔ وہ اپنے گھرانے کے ساتھ دیر کی طرف بھاگ رہا ہے۔

یہ سولہویں صدی عیسوی ہے۔ راج میر سوات سے بھاگ کر دیر کے اس دشوار گزار اور برف پوش علاقے میں اپنی گھرانے اور دوسرے ہم نسل لوگوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔اس کے کچھ ہم قوم مشرق کی طرف دور بہت دور نانگا پربت کے دامن میں آباد ہوگئے ہیں ، تو کچھ شمال میں تریچ میر کے سائے میں ۔ مغرب کے طرف بہت کم لوگ بھاگے تھے، جو تھوڑے بہت گئے تھے کنڑ کے آس پاس رہتے ہیں ۔ راج میر جس علاقے میں رہتا ہے، اسے سرد جہنم کہا جاتا ہے، بہت سردی ہے جس کی وجہ سے بہت کم رقبے پر مکئی کاشت کیجاتی ہے۔ اس لئے آٹا بہت کم یاب ہے اور لوگ دودھ دہی، پنیر اور پھل فروٹ پر گزارہ کر رہے ہیں۔ زندگی بہت مشکل سے گزر رہی ہے، لیکن اس بات کا اطمینان ہے کہ یہاں کسی حملہ آور کے آنے کا امکان کم ہے، لیکن پہرہ داری برابر کیجاتی ہے۔ گاؤں اونچے جگہوں پر گاوں بسائے گئے ہیں ۔ کسی بھی ہنگامی حالت میں دن کے وقت دھواں اور رات کے وقت آگ سے سگنل دئے جاتے ہیں ۔

راج میر کے سابق وطن سوات پر ایک نئی قوم قابض ہوچکی ہے۔ انہیں یوسفزئی پشتون کہتے ہیں۔ اس قوم نے راج میر کے ہم قوم سواتیوں کو اس جنت نظیر وادی سے نکال دیا اور وہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان کا عالیشان دارالحکومت منگلور ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ سوات کا سلطان اویس گبری جان بچا کر دیر کی وادی نہاگ درہ آچکا ہے ہے۔ یہاں اسے اپنے ہم قوم کافروں نے نہ صرف پناہ دی ہے بلکہ اپنا حکمران مان لیا ہے۔ لیکن پشتون یہاں بھی اسے چین لینے نہیں دیتے۔ آخر کار کئی سالوں کی کوشش کے بعد شبخون مار کر آخری سلطان قزن شاہ کو قتل کردیتے ہیں۔ یوں راج میر کی قوم دیر وادی کے بالائی حصوں تک محدود ہوجاتی ہے۔

اسی صدی کے اواخر میں پشتون اندورنی خانہ جنگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے ایک گروہ کو ہندوستان کے مغل بادشاہوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ دوسرے گروہ (تاریکیوں) کا پیچھا کرتے ہوئے دیر کی وادی میں گھس آتے ہیں۔ راج میر کی قوم کا گڑھ گانشال کا قلعہ ہے۔ اگر چہ مغل اس وادی پر مستقل قبضہ نہیں کر سکتے لیکن ان کے حملے نے راج میر کی قوم کو مزید کمزور کردیا۔

یہ سترھویں صدی کے آس پاس کا دور ہے۔ آخوند درویزہ کا گروہ تاریکیوں پر فتح پا کر راج میر کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ان پہاڑی لوگوں کے خلاف جہاد کے نام سے ایک بڑی مہم شروع ہوجاتی ہے جو کنڑ سے لے کر ہزارہ تک پھیل جاتی ہے۔ آخون سالاک نام کا ایک جنگجو اپنے لشکر کے ساتھ راج میر کے علاقے میں آیا گھس آیاہے۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اسلام قبول کرو تو زندہ رہوگے ورنہ موت تمہارا مقدر ہے۔ لوگ ایک بار پھر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر بھاگ رہے ہیں، اب کی بار ان کی منزل خزان کوٹ کا علاقہ ہے۔ دو ندیوں کے بیچ یہ چھپنے کی یہ بہترین جگہ ہے۔ لوگ خزان کوٹ پہنچ کر وہاں نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ گاوں تو مجاہدین کے قبضے میں ہے اس لئے یہاں پھل فروٹ اور اخروٹ کے درخت لگائے جاتے ہیں، زندہ رہنے کے لئے اب ان چیزوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ راج میر کچھ سال وہاں گزارتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی اس لئے یہاں بھی آخون سالاک بابا اپنے خاص مرید میاں عثمان کے ساتھ پہنچ جاتا ہے۔ راج میر کا قبیلہ حیران ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ سامنے بتوٹ کے میدان میں دشمن اور پشت پر برف پوش پہاڑ جنہیں اس حال میں کہ پیچھے دشمن تعاقب میں ہو پار کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ لوگ جنگ کی تیاری کرتے ہیں اور بتوٹ کے میدان میں دونوں لشکروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے، ایک طرف مضبوط لوہے کی تلواریں اور تیر کمان ہیں جبکہ دوسری طرف کا سندر کے لکڑی سے بنائے گئے نیزے اور ٹوٹی پھوٹی کلہاڑیاں ہیں۔ دونوں لشکر ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں اور راج میر کے لوگ شکست کھا کر پسپا ہو رہے ہیں، مخالف لشکر کے سپاہی ایک ایک کو پکڑ کر مار رہے ہیں۔ جو بھاگ سکتے ہیں وہ جنگلوں میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں، بچے بوڑھے مرد عورت سب بھاگ رہے ہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔زیادہ تر مارے جا چکے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ مٹھی بھر لوگ بچ نکلے، ورنہ آج راج میر کی نسل ناپید ہوجاتی۔ ان کو پکڑ کر امیر لشکر کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ تین بندے ابھی تک غائب ہیں۔ ایک مرد اور دو عورتیں، مرد کا نام کاشکین ہے۔ امیر صاحب کہہ رہا ہے فکر کی کوئی بات نہیں اس جنگل سے وہ کہاں جا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ کاشکین چترال کی طرف بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور دونوں عورتیں جنگل میں ہی مرگئی ہیں۔ بچے ہوئے سب لوگوں کو مسلمان کیا جا چکا ہے۔ سپہ سالار نے لوگوں کو گاوں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ راج میر ایک بار پھر اپنے لئے گاوں میں گھر بنا رہا ہے۔

یہ اٹھارویں صدی ہے۔ دیر کے تقریباً زیادہ تر لوگ مسلمان ہوچکے ہیں لیکن حکمران طبقہ ابھی تک غیر مسلم ہے، جو پتہ نہیں کیسے آخون سالاک بابا سے بچ گیا ہے۔ آخون سالاک بابا کا انتقال ہو چکا ہے۔ مسند اقتدار پر اب خان ظفر خان براجمان ہے۔ لیکن داروڑہ شاکس سے اوپر کے علاقے پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس لئے تقریباً 1804 کے قریب وہ دیر خاص پر حملہ کرکے شاہی قلعے کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ حکمران طبقہ شکست کھا کر نامعلوم علاقے کے طرف بھاگ جاتا ہے۔ خان دیرخاص میں ایک مضبوط قلعہ بنا کر اسے اپنا درالحکومت قرار دیتا ہے۔ لیکن راج میر پر اس تبدیلی کا کوئی اثر نہیں پڑا وہ ان سب سے لاتعلق اپنے لوگوں کے ساتھ اپنے علاقے میں رہتا ہے۔ زندگی بغیر کسی ہلچل کے گزر رہی ہے۔ لوگ پرانے واقعات کو بھول کر نئی زندگی شروع کر چکے ہیں۔ کچھ عرصہ یونہی امن و امان سے گزرتا ہے لیکن ایک بار پھر راج میر کے قوم کو جنگ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 1891 کے آس پاس کا واقعہ ہے جندول سے عمراں خان نام کا ایک بندہ اپنے لشکر کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے اس نے چترال، آسمار اور اس کے پاس کے علاقے میں لشکر کشی کرکے لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا ہے۔ لیکن راج میر کے علاقے میں اس کی موجودگی اسلام کے وجہ سے نہیں ہے کیونکہ راج میر کے لوگ اب مسلمان ہیں۔ اس نے دیر کے خان جنہیں اب نواب کہا جاتا ہے کے راج پر قبضہ کیا ہے اور اسے سوات بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ راج میر کا دیر کے نواب یا دیر سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بد قسمتی سے اس وقت تک علاقے کی اب و ہوا تبدیل ہوچکی ہے۔ اب سال میں ایک فصل آسانی سے تیار ہوتی ہے، اور راج میر کا علاقہ نواب کے پورے راج میں سب سے زرخیز علاقہ ہے، اس لئے عمراں خان نے حملہ کیا ہے، اب جنگ مذہب کے نام پر نہیں ہے بلکہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے۔ راج میر جانتا ہے کہ گیارویں عیسوی سے جاری اس جنگ کا مقصد مذہب کی ترویج نہیں ہے بلکہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے۔

ایک بار پھر راج میر اور ان کے لوگ جنگ کے لئے تیاری کرتے ہیں، اس دوران راج میر کے آس پاس بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے، راج میر کے زیادہ تر لوگ اب کوہستانی نہیں رہے، انہیں اب پشتون بنایا گیا ہے، گاوری جو راج میر کی مادری زبان تھی وہ لوگ بھول چکے ہیں اور غور کرنے سے بھی وہ لوگ کہیں سے بھی داردی گاوری نہیں لگتے۔ راج میر کے لوگ اب اقلیت میں ہیں اور ایک مخصوص علاقے میں محدود ہوکر رہ رہے ہیں۔ جسے کوہستان کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی سکون سے نہیں رہنے دیا جاتا اگرچہ اب بندق کی جنگ ختم ہوچکی ہے لیکن جنگ ابھی بھی جاری ہے، راج میر کے آبائی علاقوں کے نام تبدیل کئے جا رہے ہیں، جار کو بیاڑ نام دیا جاتا ہے اور راجکوٹ کو پاتراک کہا جاتا ہے۔ خود راج میر کے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ایک حصہ سوات کے علاقے کالام اور آس پاس کے وادیوں میں رہتا ہے اور ایک حصے نے کاش دادا کی راستے پر چلنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کاشکین پاس کے راستے چترال چلے گئے ہیں۔ چترال جانے والے گاوریوں نے تو پیچھے کی کوئی خبر نہیں لی لیکن پیچھے رہنے والوں نے انہیں فراموش نہیں کیا۔ وہ آج بھی اپنے بچھڑنے والے بھائیوں کو "موسینگور" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ (یہ شاید وہی لوگ ہیں جو بالائی چترال میں "موسنگے" کہلاتے ہیں)۔ البتہ سوات جانے والوں کے ساتھ ابھی بھی راج میر کا رابطہ ہے، جنگ سر پر پہنچ گئی ہے۔ عمرا خان نے جٹکوٹ کے مقام پر مقامی داردی لوگوں کو شکست دی ہے اور راستے میں آنے والے ہر گاوں مسجد سمیت مسمار کرکے وہ اب تھل پہنچ چکا ہے۔ تھل کا کونڈ شئی میدان ہے، راج میر کے ساتھ سوات سے آنے والے بھائی بھی اس جنگ میں شریک ہیں، دونوں لشکروں میں زوردار جنگ چھڑ جاتی ہے لیکن کہاں تھوڑے دار بندوق اور کہاں برٹش آرمی کے جدید رائفلیں اس لئے بہادری سے لڑنے کے باوجود راج میر کو شکست ہوجاتی ہے۔ جنگ ختم ہوجاتی ہے اور راج میر کا علاقہ جس پر ابھی تک خانِ دیر قبضہ نہیں کرسکا تھا اب عمران کے راج میں شامل ہوجاتا ہے۔ عمران واپس جاتا ہے اور پھر سب سے بڑے نواب یعنی انگریز اسے چترال پر فوج کشی کی سزا دے کر اسے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے۔ نواب دیر بڑے نواب کے رحم کی وجہ سے دوبارہ دیر پر راج کرتا ہے۔ وقت گزرتا ہے اور راج میر کے ساتھ اس کے لوگ بھی سب کچھ بھول ایک بار پھر زندگی کے سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ مگر نواب بہت ظالم ہے۔ نواب کے بیگار بہت ہیں اور اوپر سے ہر سال ہر گھر سے نواب کو خراج دیا جاتا ہے۔ جسے محصول کہا جاتا ہے۔ لیکن راج میر خوش ہے کہ جو بھی ہے لیکن کم سے کم زندہ رہنے کا حق تو ملا ہے۔ کچھ عرصہ گزر جاتا ہے پھر ایک دن خبر آتی ہے کہ پاکستان نام کا کوئی ملک بنا ہے اور اس نے دیر کے نواب کو ہٹا کر راج میر کے علاقے کو آزاد کرایا ہے۔ سب خوش ہیں کیونکہ ظالم نواب اب اور ظلم نہیں کرسکتا اور وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ وقت گزرتا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے، زندگی امن و شانتی کے ساتھ گزر رہی ہے۔ راج میر کے علاقے کو اب دیر میں ایک خاص مقام حاصل ہے، ماضی کا سرد جہنم اب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے خوبصورت جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس علاقے کی بڑی دولت اس کے جنگل اور چراگاہ ہیں۔ راج میر کو امید تھی کہ آزادی کا دور ان کے لیے اپنے وسائل پر اختیار دے گا۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ راج میر آج بھی نا انصافیوں کا شکار ہے۔ اس کا جنگل دوسروں کے تصرف میں ہے۔ اب نیشنل پارک کے نام سے چراگاہوں سے استفادے کو بھی محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ کیا راج میر کو ایک بار پھر نقل مکانی کرنی ہوگی؟ اب کی بار وہ کہاں جائے گا؟ یا پھر ایک بار پھر بتوٹ کا میدان سجے گا ؟ لیکن راج میر کوئی انتہا پسند یا جنگجونہیں ہے۔ وہ تو ستار کے دھن پر سر ہلانے والا ایک مست داردی ہے۔

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com