مرزا محمد غفران کا خاندان اور تاریخ نویسی

Back

مرزا محمد غفران کا علمی خاندان

ممتاز حسین
اس خاندان کا تعلق چترال شہر کے قریبی گاؤں کاری سے ہے۔ مرزا محمد غفران مولوی غلام رسول کے فرزند تھے۔ آپ تقریبا 1848 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے تقریباً سات سال پشاور اور دوسرے شہروں میں علم کی تلاش میں گذارے۔ جب اس وقت کے حکمران مہتر امان الملک کو ان کی قابلیت کا علم ہوا تو انہیں بُلا بھیجا اور اپنے ساتھ رکھ لیا۔ انہیں مزید پڑھنے کا شوق تھا اس لیے کچھ عرصہ بعد واپس پشاور چلے گئے۔ تاہم مہتر نے پھر سے انہیں واپس بلایا اور اپنا میر منشی مقرر کردیا۔ وہ بیالیس سال اس عہدے اور دیگر اعلیٰ مناصب پر فائز رہنے کے بعد 1926 میں وفات پا گئے۔ اپنی قابیلیت کی وجہ سے انہیں کئی حکمرانوں کے ہاں تقرب حاصل رہا اور معمولی پس منظر سے اُٹھ کر ریاست کے اندر بلند ترین مناصب پر فائز ہوئے۔ مرزا غفران شاعر، ادیب اور مورخ تھے۔ انہوں نے درجنوں کتابیں مختلف موضوعات پر لکھیں جن کا علمی پائہ بہت بلند ہے۔ 1892 میں نئے حکمران افضل الملک نے ان سے فرمایش کی کہ اس علاقے کی تاریخ لکھے۔ انہوں نے "تاریخ چترار" کے نام سے ایک مختصر مسودہ فارسی میں لکھ کر پیش کیا۔ یہ مسوددہ بعد میں انگریزوں کے ہاتھ لگا، جنہوں نے اپنے ایک ہندوستانی ملازم منشی عزیز الدین سے اس کا ترجمہ کرایا اور جو اضافوں کے ساتھ "تاریخ چترال " کے نام سے شائع ہوا

1915 کے بعد اس وقت کے حکمران شجاع الملک کی خواہش پر انہوں نے تارِیخ پر کام کو آگے بڑھایا اور ایک نسبتاً مفصل کتاب تاریخ چترار لکھی جسے مہتر نے اپنے اہتمام سے 1921 میں طبع کرائی۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کی اشاعت روک دی گئی اور اس کے نسخے ضائع کردیے گئے۔ بعد میں اس کے ایک دو نسخے مصنف کے گھر سے برامد ہوئے۔ تاریخ چترال کے علاوہ ان کی تصنیفات میں تشریح الاقاویل (قران مجید کے مشکل مقامات کی تفسیر)، درج آلالی فی شرح آمالی، توضیح مولائیہ چترال، شرح فقہ اکبر، تاریخ خلفائے راشدین، سفرنامے اور فارسی کلام شامل میں۔

مرزا غفران کے تین بیٹے تھے۔ بڑا مرزا غلام مصطفےٰ خان علی گڑھ کا تعلیم یافتہ اور مہتر کا انگریزی سیکرٹری تھا۔ 1924 میں سفر حج کے دوران انتقال کیا۔ دوسرا مرزا غلام مرتضےٰ خان ریاست کے اندر مختلف اہم عہدوں پر رہا جن میں ریاسی فوج کے کوارٹر ماسٹر اور سیکرٹری خزانہ کے عہدے شامل تھے۔ تیسرا بیٹا مرزا غلام جعفر مہتر کا انگریزی سیکرٹری رہا۔ مرزا غلام جعفر کا بیٹا محمد عرفان موجودہ دور میں چترال کے سرکردہ شعراء اور مصنفین میں شمار ہوتا ہے۔ مقامی تاریخ اور ادب پر ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کا دوسرا فرزند شوکت علی شاعر ہونے کے ساتھ موسیقی کا بھی استاد مانا جاتا ہے۔

1940 میں مہتر ناصر الملک نے تاریخ نویسی کے کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود بہت پڑھے لکھے اور فاضل شخص تھے۔ انہوں نے مرزا غلام مرتضےٰ کی مدد سے اس موضوع پر کام کیا۔ لیکن 1943 میں ان کی اچانک وفات کی وجہ سے یہ کام تشنہ رہا۔ 1950 کے بعد مرزا غلام مرتضےٰ نے ایک جدید تعلیم یافتہ نوجوان وزیر علی شاہ کی مدد سے اس کام کو پھر سے شروع کیا۔ اس بار فارسی کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جو "نئی تاریخ چترال" کے نام سے 1961 میں شائع ہوئی۔ کتاب کا پہلا حصہ تاریخ کے بارے میں ہے جبکہ دوسرے حصے میں چترال میں بسنے والے اہم نسلی گروہوں، قبیلوں اور شخصیات کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب کا بنیادی مواد مرزا محمد غفران کی فارسی "تاریخ چترال" سے لیا گیا ہے۔ تاہم شروع اور آخر کے ابواب مہتر ناصر الملک، مرزا غلام مرتضےٰ اور وزیر علی شاہ کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔

مرزا محمد غفران کا خاندان گذشتہ ڈیڑھ سو برس سے اس علاقے میں علم و فن کی خدمت کر رہا ہے۔ خصوصاً علاقے کی تاریخ کو دریافت کرنے اور اسے محفوظ کرنے میں اس خاندان کا بہت اہم حصہ ہے۔ مرزا محمد غفران کی تاریخ کا پہلا نسخہ بہت مختصر اور بغیر تفصیلات کے ہے۔ دوسرے نسخے میں زیادہ تحقیق کے ساتھ تاریخ کو مدون کیا گیا ہے۔ واقعات کی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے اور سنی سنائی روایات کو ثابت شدہ واقعات سے الگ درج کیا گیا ہے۔ مصنف کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ فن تاریخ نویسی سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریر میں احتیاط پسندی کا عنصر بہت نمایاں ہے اور وہ کسی روایت کو بلا تحقیق لینے کو تیار نہیں۔ تاہم "نئی تاریخ چترال" کے مصنفین کے بارے میں یہی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگرچہ انہوں نے تاریخی تحقیق میں عرق ریزی کر کے بہت سی گمشدہ کڑیوں کو ملایا ہے، لیکن عدم احتیاط کی وجہ سے کئی بے سر و پا چیزیں بھی تاریخ میں در آئی ہیں، جن کا ثبوت کسی ذریعے سے مہیا کرنا ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ "نئی تاریخ چترال" میں واقعات کی تاریخی ترتیب اور سنین کی صحت کا خیال کم رکھا گیا ہے۔

لیکن ان کمزوریوں کےباوجود 'نئی تاریخ چترال' اس علاقے کی تاریخ اور روایات پر ایک قیمتی دستاویز ہے۔ 'نئی تاریخ چترال' خصوصاً اس کے ابتدائی تین ابواب کو نہایت احتیاط سے پڑھنا چاہیے۔ بہتر یہ ہوگا کہ مرزا محمد غفران کی فارسی تاریخ اور دیگر قدیم و جدید مآخذ پر بھی نظر رکھی جائے۔


چترال کی تاریخ پر مزید:
History of Chitral- an Outline
تاریخ چترال کا ابتدائی دور-کچھ مسائل

13.03.2019     

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com