Back To Main Page

نئی کتاب ’’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ‘‘ پرایک نظر

محمدعرفان عرفانؔ

“تاریخ چترال کے بکھرے اوراق” پروفیسراسرارالدین صاحب کی نئی تصنیف ہے جوکچھ عرصہ پہلے چھپ کرمنظرعام پرآئی ہے۔یہ کتاب تاریخ کے طلباء اورتحقیق سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے ایک کارآمد کتاب ہے جوتاریخ کے حوالے سے وقت کی اہم ضرورت کوپوراکرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگی۔کتاب کے مصنف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ ملک کے چترال کے مشہور ماہر تعلیم۔ ادیب اور محقق ہیں۔ اُن کی کتاب پرتبصرہ کرنا چھوٹی منہ بڑی بات کے مترادف ہے، تاہم کتاب کا موضوع ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس کتاب میں موجوداہم اور نایاب معلومات قاری کے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ انھیں دعوتِ فکربھی دیتے نظرآتے ہیں ۔ اس لیے ’’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ‘‘ پر تبصرہ یاجائزہ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔

مصنف نے اپنی کتاب میں چترال کی تاریخ کوایک منفرداندازمیں نایاب معلومات کویکجاکرکے اصل اقتباسات کوہوبہوُ درج کرنے کے بعدان کے اُ ردوتراجم اورحوالہ جات کوجدیدتقاضوں کے مطابق تحریرکے سانچے میں ڈھال کرپیش کیاہے جس سے ان کی تصنیف میں ایک جدت پیداہوگئی ہے۔ کتاب کے صفحہ ۱۴میں تاریخ نویسی کے اصولوں پربحث کی گئی ہے جووقت کی اہم ضرورت تھی۔اس بحث سے شہہ پاکرمیں یہاں علامہ عبدالرحمن ابنِ خلدون کی شہرہ آفاق تصنیف ’’مقدمہ ابنِ خلدون‘‘ کی صفحہ ۳۸ میں ’’مورخین پرتنقیدی نگاہ‘‘ کے عنوان سے مضمون کا مختصراقتباس پیش کرنے کے بعداصل کتاب پر اپنا جائزہ پیش کرونگا۔ابن خلدون لکھتے ہیں’’بڑے بڑے مورخینِ اسلام نے مفصل تاریخیں لکھیں اوردنیاکے حالات پورے پورے قلم بندکیے اورکتابوں میں محفوظ کیےلیکن افسوس بن بلائے نالائق مہمانوں نے تاریخ میں جھوٹے اورمن گھڑت اَفسانے ملادیے،اوہام وخیالات بھردیے اورکمزورمنقولہ اورخودتراشیدہ روایات کے خوبصورت حاشیے چڑھادیے ۔پھربعدوالے اُ ن ہی کے راستے پرچل پڑے ،لکیرکے فقیربن گیے اورکچھ واقعات انہوں نے سنے تھے وہی بلاکم وکاست ہم تک پہنچا دیے۔ انہوں نے واقعات کے اسباب پرغوروفکرنہیں کیااورنہ اُ ن کی رعیت پیش نظررکھی۔بے بنیاداوراُڑتی ہوئی باتیں بھی نہیں چھوڑی اورنہ ان کامعقول جواب دیا غرض کہ برائے نام تحقیق بھی نہیں کی گئی ۔۔۔۔۔۔تقلیدانسانی طبیعتوں میں پختہ ہوگئی ہے اوراپنی جڑیں پھیلاچکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ناقِل صرف نقل کرکے لکھتاہے. بے شک صحیح ہویاغلط جبکہ بصیرت غوطہ لگانے سے کھوٹے کھرے کوپرکھ لیتی ہے اورعلم بصیرت دل کے صفحات کوشفاف اورروشن بنادیتاہے (مقدمہ ابنِ خلدون صفحہ۳۸ ترجمہ مولاناعبدالمجیدصدیقی)۔آگے جاکرلکھتے ہیں کہ ’’تاریخ لکھنے کے لیے لاتعدادماخذوں ،انواع علوم ومعارف،حسنِ نظر اوراصابت رائے کی ضرورت ہے تاکہ گہرافکراوراصابت رائے مطالعہ کرنے والے پرحق کوواضح کردے اوروہ حق کی روشنی میں کوتاہیوں اورغلطیوں سے محفوظ رہے کیونکہ اگرخبروں میں صرف نقل پراعتماد کیاجائے اوراصولِ عادت ،قواعدسیاست ،مدنیت کی طبیعت اورمعاشرے کے حالات کوپنج نہ بنایاجائے اورموجودکاغیرموجوداورغائب کاحاضرپرقیاس نہ کیاجائے تو ان میں بہت سی کوتاہیوں اورغلطیوں کاسیدھی راہ سے ہٹ جانے کاامکان باقی رہتاہے چنانچہ مورخیں،مفسریں اورائمہ نقل کو حکایات وواقعات میں بہت سی غلطیاں صرف اس لیے پیش آئیں کہ انہوں نے صرف نقل پربیشک غلط ہویاصحیح قناعت کرلی اورواقعات کوان کے معیارپررکھ کرنہیں دیکھا۔۔۔۔خاص کرحکایات میں جھوٹ کااحتمال بہت ہے اورلغویات کی کافی گنجائش ہے اس لیے حکایات کواصول وقواعدپرپرکھناضروری ہے(مقدمہ ابنِ خلدون صفحہ ۴۴)۔ مقدمہ ابنِ ِ خلدون کے مذکورہ اقتباس کی روشنی میں چترال کی تاریخ پرابتک لکھی کتابوں پررائے زنی کی جائے توبہت سی حقائق منظرعام پرآسکتی ہیں بصورت دیگرمیرے خیال میں مغربی رائیٹرزکی موشگافیاں مزیدپیچیدگیاں پیداکرنے کی سبب بنتی جائینگی۔کیونکہ قرون اولیٰ کے غیرمسلم ہےئت دان صرف مفروضوں اور دوسروں کی نقل سے اپنے علوم کوآگے لے جاتے تھے۔قرون وسطیٰ میں مسلمان حکمران خلیفہ مامون الرشیدنے بیت الحکمت کے نام سے تحقیق کااِدارہ قائم کرکے ہرایک کام کوپرکھ کرنتیجہ اخذکرنے کااصول وضع کیا۔اس وقت تک یونان کے فلاسفر اس بات پرمتفق تھے کہ انسان کے منہ میں کل ۶۴دانت ہوتے ہیں ۔ انہوں نے اس وقت تک اپنے منہ مین دانتوں کوگننے کی تکلیف گوارانہیں کیاتھا۔پروفیسرفلپ کے حتی لکھتے ہیں ’’جس وقت ہارون اورمامون یونان اورایران کے علوم وفنون کے خزانے ڈھونڈڈھونڈکرعربی میں منتقل کررہے تھے اوریونانی فلسفہ پرریسرچ کررہے تھے ا س وقت فرانس کابادشاہ شارلیمان اوراس کے لارڈزاپنے نام لکھنے کی مشق میں مصروف تھے۔‘‘

اس تمہیدکے بعداب زیرنظر کتاب کی طرف آتے ہیں جوکل ۱۳ابواب پرمشتمل ہے اورہرباب اپنی خصوصیت کے اعتبارسے منفردحیثیت کاحامل ہے۔بابِ اول میرے اس مضمون کاموضوع ہے اس سے قطع نظردوسرے باب میں مغربی ماہرین آثاریات کے تحقیقی کام کوآسان اُ ردوکے قالب میں ڈھال کرقارئین کے ایک مشکل کوحل کیاگیاہے اورآئندہ تاریخ اورآثاریات پرتحقیق کرنے والوں کے لیے وافرمقدارمیں معلومات فراہم کیاگیاہے۔آئندہ جولکھاری بھی اس موضوع پرقلم فرسائی کریگاوہ زیرنظرکتاب کے اس باب میں تحریرنکات ہی کے گردگھومے گاکیونکہ یہ باب اپنے موضوع کے تمام پہلوؤں کواحاطہ کیاہواہے اورمختلف مغربی مصنفین کے ۲۶مستنداورنایاب کتب میں تحریرمقالوں کانچوڑہے ۔ایک طالبعلم اورمحقق کے لیے مذکورہ نایاب کتابوں کی تلاش کی دقت کوآسان بنایاگیاہے ۔مصنف کایہ کام علم کے متلاشیوں پراحسان کے مترادف ہے۔ اسی طرح باب سوئم میں چترال میں آثارقدیمہ ،جدیددورمیں جن مرحلوں میں ہے اس بارے میں مغربی اسکالروں کی غالباََ پندرہ کتابوں سے ماخوذ اقتباسات اورتحقیقی معلومات درج ہیں ۔مذکورہ اصل کتابیں نایاب ہونے کی بناپران معلومات کوقیمتی موادکادرجہ حاصل ہے۔بابِ چہارم میں سیگرکی تحقیق کی بنا پرکلاش قبیلے کی مادی کلچرسے لیکرچترال کی تاریخی اہمیت تک کے موضوعات پربحث، کلاش کلچرپر ابتک کی تمام تحقیقی مقالوں کانچوڑہے ۔اس میں بھی غالباََ پندرہ انگریزمحققین کی کتابوں سے استفادہ کیاگیاہے۔اس میں مختصر،جامع اورواضح اندازمیں کلاش تہذیب ،تاریخ اورطرزمعاشرت پربحث کیاگیاہے۔ اس باب کوبھی اپنے موضوع کےاعتبارسے ایک مکمل کتاب کی حیثیت حاصل ہے۔ بابِ پنجم میں چترال میں مقیم بعض پرانے باشندوں سے متعلق مرزارحمت نظر کی یاداشت سے ماخوذمعلومات ،چترال کی تاریخ میں مروجہ طرزِ نگارش سے ہٹ کرنئے باب کااضافہ ہے کیونکہ یہ معلومات ریاست کے سربراہ کے زیرنگرانی ریاست کے ایک ذمہ دارکارندے کی کاوشوں کانتیجہ ہے ۔اس وجہ سے ان معلومات کو سندکادرجہ حاصل ہے۔یہ بات ہرطرح سے آزاداَشلوک والی کتابوں کے لیے برہان قاطع کادرجہ رکھتاہے۔ چھٹے باب میں سرجارج گریسن کی تحقیق پربحث کیاگیاہے جس میں غالباََ دس یورپی محققین کی کتابوں سے استفادہ کیاگیاہے اورچترال میں بولی زبانوں پر تحقیقی کام کاجائزہ پیش کیاگیاہے ۔اس کام کوابتک مشکل انگریزی میں لکھے نایاب کتابوں میں سرِ مکنون کی حیثیت حاصل تھی۔اس میں کافرگروپ،دردگروپ،درد کون تھے ،درداوررومن ،درداوراشوکہ، کھوار، پساچہ اورادب پرروشنی ڈالی گئی ہے اوراس مضمون میں مذکورہ کتابوں خلاصہ جامع اندازمیں آسان ا ردومیں پیش کیاگیا ہے۔ بابِ ہفتم میں جارج مارگسٹن کے زبان وادب پرکیے کام کوآسان لفظوں میں پیش کرکے مزیدسات آٹھ یوروپین محققین سے استفادہ کرکے زبان واَدب پرکام کرنے والوں کے لیے راہ ہموارکیاگیاہے۔ اسی طرح باب ہشتم سے لیکرچودھویں باب تک شمالی سرحدات کے بارے میں برطانوی ہندکی پالیسی ،مہترچترال کے بارے میں لارڈکرزن کے تاثرات، برطانوی حکام اورچترال کے حکمرانوں کے درمیان فارسی خط وکتابت ،برطانوی حکام اورچترال کے حکمرانوں کے درمیان انگریزی خط وکتابت اوران کے ا ردو ترجمے، چترال میں ذمہ دارحکومت کے قیام کی تیاریاں اورحرف آخرتک یہ کل چھ ابواب چترال کی تاریخ ،سیاسیات اورمدنیت کواحاطہ کیے ہوئے ہیں جن میں سے اکثرابتک منصہ شہودپرنہیں آئے تھے جن پرروشنی ڈال کرفاضل مصنف نے تاریخ کے طالبعلموں کے لیے نہایت اہم اورگرنقدرموادفراہم کیا ہے۔کتاب کے ہرباب پرمختصر تبصرے کے بعداصل موضوع یعنی باب اول کی طرف آتے ہیں۔

بابِ اول میں فاضل مصنف کااپنانقطہ نظرابتدائیہ کے طورپرتبصرے کی صورت میں نمایاں نظرآتاہے اورکتاب کے قاری کونہ صرف دعوتِ فکردیتاہے بلکہ سے اس حوالے سے اپنامافی الضمیرپیش کرنے پر بھی راغب کرتاہے۔فاضل مصنف کایہ اندازتحریران کے اہل فن ہونے کاثبوت مہیاکرتاہے اورہم جیسے بے زبانوں کوگویاکردیتاہے ۔اس بناء پرکہناپڑتاہے کہ ’’چترال میں دستیاب مخطوطات کی تاریخ محمدشکورغریبؔ کے زمانے سے شروع ہوتی ہے ،مرزامحمدشکورسے لیکرمرزامحمدغفران کے زمانے تک کے لکھنے والوں کی طرزنگارش تحقیق،تدوین اوراندازِ بیان اسلامی مکتب فکرکے مفکرین کے وضع کردہ اصولوں کے عین مطابق ہیں۔دوسرادورلیفٹیننٹ غلام مرتضیٰ ،سرناصرالملک سے لے کرجناب وزیرعلی شاہ تک ہے اورتیسرادورجناب غلام عمراورپروفیسراسرارالدین سے شروع ہوتاہے۔دوراول کے لکھنے والوں میں تاریخ کے لیے موادمہیاکرنے میں مرزامحمدسےئرکواولیت حاصل ہے ۔انہوں نے اپنی علمی استعدادکوبروئے کارلاکراپنے دورکے جنگوں اورملک گیری کے واقعات کو شاہنامہ فردوسی کے طرزپرفارسی نظم میں آراستہ کیا۔یہ واقعات نگاری بعدکے لکھنے والوں کو تاریخ نویسی کی طرف متوجہ کیااورایک مخصوص دورکی تاریخ کے لیے قیمتی مواد اورمعلومات فراہم کیا۔اگرکوئی نقادمرزاسےئرکے شاہنامے کوتنقید کی نظرسے پرکھتاتوشاہنامے کے تمام ادبی اورعلمی خوبیوں کے باوجودآئیندہ نسل کومعلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں اس میں تشنگی ضرورمحسوس کرتاکہ انہوں نے اپنے جدِ اعلیٰ محمدبیگ جس کاسلسلہ نسب پانچویں پشت میں باباایوب سے جاملتاہے کے بارے میں ضمناََ بھی کچھ تحریرکرتاتوآج ایک اہم نکتہ سرہوجاتا۔

اس کے ایک صدی بعدکے لکھنے والے مرزا محمد غفران نے ان کے کام کواس حدتک سراہاکہ ان کے بارے میں لکھا’’ سیرطوطئی شاخ سخنوری وَعندلیب گلزارنظم گستری بودہ است۔‘‘اورمذکورہ تشنگی کی طرف اشارتاَۃ بھی کچھ لکھنے سے گریزکیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دوراول کے لکھاری اسلامی مکتب فکرکے مفکرین کے اصولوں کے پابندتھے ،حقیقت نگاری اورتحقیقی کام کوسراہتے تھے ،سنی سنائی بات کوپنج بناکراورکچھ اپنی طرف سے مبالغہ آرائی کرکے تاریخ مرتب کرنے کوعیب سمجھتے تھے۔اسطرح مرزامحمدغفران نے اپنے تاریخ چترال کے دوفارسی مسودوں کوضبط تحریرمیں لاتے ہوئے جس سے جوسن کرلکھا،اس مقام پراس کانام لیا۔جہاں دیکھااُ سی جگہ اس حوالے سے بات کی۔جہاں کہیں سن ہجری دستیاب ہوادرج کرلیا۔جہاں زمانے کاتعین قرائن کے ذریعے کرناپڑاوہاں صاف صاف لکھدیایہ ایک قرینہ ہے۔

تیسرے دورمیں جب مرزامحمدغفران کے کام کوآگے بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی تواس مرحلے کے بارے ہمیں مزیدمعلومات زیرنظر کتاب ’’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘‘ میں اس وضاحت کے ساتھ یوں بیان ہوئی ہے۔’’حشمت اللہ خان کی تاریخ ۱۹۳۹ء علاقائی تاریخ نویسی میں ایک موڑثابت ہوا۔جس نے گلگت کے علاقے کی مسلسل تاریخ ۱۷۰۰ء سے ۱۷۷۰ء تک مرتب کی اورایک نئے معیارکی طرح ڈالی۔ایسالگتاہے کہ ۱۹۴۰ء میں چترال میں شاہی دربارمیں تاریخ نویسی کے ساتھ نئے سرے سے دلچسپی پیداہوئی غالباَ حشمت اللہ خان کے کام سے متاثرہوکرمہترکے سیکرٹری (غلام مرتضیٰ) نے یہ رائے ظاہرکی تھی کہ مرزامحمدغفران کی تاریخ چترال ۱۹۱۹ء نامکمل ہے کیونکہ اس میں قدیمی تاریخی حالات مزیدتحقیق کے متقاضی ہیں۔چنانچہ اس تجویزپرمہترمحمدناصرالملک نے بذات خوداس پرنظرثانی کرکے اس میں اضافہ کرکے ان خامیوں کودورکرنے کی کوشش کی (تاریخ چترال کے بکھرے اوراق صفحہ ۱۷)۔اس کتاب میں آگے جاکرتحریرہے کہ ’’رئیسہ خاندان کے ۱۳۲ ء میں حکومت قائم کرنے کے بارے میں چترال میں تاریخ نویسی میں نہایت اہم مفروضہ ہے۔‘‘ ناصرالملک کے اقتباسات پرعمل کیاگیاہے ،ناصرالملک نے حشمت اللہ خان پرانحصارکیاہے ۔(کتاب ایضاََصفحہ ۱۸)زیرنظرکتاب کے مندرجہ دواقتباسات کوبنیادبناکراس بحث کومزیدآگے بڑھایاجائے توحقیقتاََ مرزامحمدغفران نے پہلی باررئیس حکمرانوں کے نام منظرعام پرلائے ۔وہ اپنے۱۹۱۹ء کی تاریخ چترال میں لکھتے ہیں کہ ’’نامہائے حکمرانانِ رئیسہ رابجستجوئے بسیاربدست آوردہ اَم بہ تفصیل ذیل اندشاہ عبدالقادربن شاہ محمودبن شاہ ناصربن شاہ طاہربن شاہ اکبربن شاہ نظام بن خون رئیس بن جون رئیس بن شاہ نادراوراآیاش بیگ ہم گفتند۔‘‘ اگررئیس حکمرانوں کے متعلق مرزامحمدغفران کے مذکورہ ناموں پرنیک نیتی سے تحقیق ہوتاتواب تک بہت سے حقائق سامنے آجاتے مگرافسوس خاکم بدہن ہم سب ملکراَباپرستی اورمغرب پرستی کالبادہ اوڑھ کران کی عینک سے چترال کی تاریخ کامطالعہ کررہے ہیں اورہمارے بہت سے اہل قلم اب بھی اس بات پرمصرہیں کہ ہولزورتھ ولف گینگ نے رئیسوں کے یہ نام حشمت اللہ خان کے تاریخ جمون وکشمیرمیں مذکورنہ ہونے کی وجہ سے انہیں مستردکیاہے اوران ہی کے حوالے سے اس بات پربہت زیادہ زوردیاجاتاہے کہ لیفٹیننٹ غلام مرتضیٰ کی نئی تاریخ چترال میں زمانی غلطیوں کی اصل وجہ بھی ملا بابا آدم کودیے قدیم فارسی اسنادکوتاریخ چترال میں درج کرتے ہوئے ھجری سنوں میں غیرمعمولی تبدیلیاں ہیں۔درحقیقت ہولزورتھ کی تحقیق کی بنیادبھی ملا کی دوڑمسجد تک کے مصداق صرف اورصرف حشمت اللہ خان کی تاریخ جموں وکشمیرکے گردگھومتی ہے۔اس لیے یہاں مذکورہ دونوں نکات پرعلٰحیدہ علٰحیدہ مختصرروشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ تاریخِ چترال پرکام کرنے والوں کے لیے تحقیق کی کوئی نئی راہ نکل آئے۔ جہانتک فارسی سندات کاتعلق ہے یہ سندات اب بھی اصل صورت میں ملاباباآدم کے خاندان میں موجودہیں ۔جن سے سب سے پہلے مرزامحمدغفران نے تاریخ چترال پرکام کرتے ہوئے بطورمخطوطات اورنادرقلمی نسخہ جات استفادہ کیا۔بعدمیں سرناصرالملک اورلیفٹیننٹ غلام مرتضیٰ نے اسنادِ مذکور سے بھرپوراستفادہ کرنے کی کوشش کی اوران سندات میں سے بعض کے نقول کتاب میں درج کردیے لیکن بدقسمتی سے اس وقت ان سے دو غلطیاں سرزدہوئیں ،اگرچہ ان غلطیوں کی حقیقتاََ کوئی ظاہری حیثیت نہیں تھی مگرفی زمانہ نقادوں نے انھیں رائی کاپہاڑ بنادیا۔غلطیاں کچھ یوں تھیں۔کتاب کے موضوع سے ایک بالکل غیرمتعلقہ سندجس پرواضح طورپر۱۱۵۳ء ھجری درج ہے نئی تاریخ چترال میں غلطی سے ۱۰۵۳ء ھجری پرنٹ ہواہے ۔اس سندکانہ کتاب میں درج کسی واقعے سے کوئی تعلق ہے اورنہ اس حوالے سے کسی دورانئے کاتعین کیاگیاہے ،نہ اس سندکاکوئی اثرکتاب میں درج دورانئے سے متعلق ہے ۔دوسری غلطی یہ ہوئی ہے کہ مہترمحمدشفیع نے اپنے دور اقتدار کے مختلف اوقات میں دواسنادایک ہی شخص ملاباباآدم کوعطاکیے ہیں۔ان اسنادکونئی تاریخ چترال میں درج کرتے ہوئے ایک سندمیں درج سنہ ھجری دوسری سندمیں اوردوسری سندمیں درج سنہ ھجری پہلی سندمیں بتایاگیاہے جوکہ اصل سندات کے برعکس ہے لیکن اس کااثرتاریخ چترال میں درج دورانئے اورواقعات پرپڑنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ اس ضمن میں ایک اوروضاحت یہاں ضروری معلوم ہوتاہے کہ اگرآئیندہ تاریخ کاکوئی طالبعلم ان اسنادپرمزیدتحقیق کرناچاہے توانھیں مزیدچندمشکلات کاسامناکرناپڑے گاوہ یوں کہ مذکورہ اصل اسنادپرمختلف ادوارکے کئی حکمرانوں کی مہریں ثبت ہیں مگراسنادمختلف ادوارمیں ایک ہی شخص یعنی ملاباباآدم کوملی ہیں ۔تاریخ چترال کے مطابق چونکہ ملاباباآدم ،شاہ ناصررئیس کے دورمیں چترال آکرپورے چترال کے عہدۂ قضاپر مقررہوئے اور ایک طویل عرصے تک اس عہدے پرفائز رہے۔ اس دوران مختلف حکمرانوں نے انھیں سندات عطا کیے۔ رئیس حکمرانوں شاہ محمودبن شاہ ناصراورشاہ عبدالقادربن شاہ محمودرئیس کے علاوہ کٹورحکمران شاہ محمدشفیع نے انھیں اسنادعطا کیے۔مگران سندات پرشاہ امان الملک کے دورتک کے حکمرانوں کی مہریں ثبت ہیں ۔اس سے اسنادکے قاری اس مخمصے میں مبتلاہوگاکہ ایک شخص۱۲۰ سال سے لیکر۲۰۰تک کس طرح ایک عہدے پرفائزرہے۔اس غلط فہمی کودورکرنے کے لیے ہمیں اس دورکے طرز حکمرانی،مدنیت ،اطوارکامطالعہ کرناضروری ہوگا تب ہم جاکے کسی نتیجے پرپہنچ سکتے ہیں ۔چونکہ چترال میں قدیم الایام سے ریاستی عہدے ایک ہی خاندان میں نسل درنسل چلتے آئے ہیں اورشاذونادرہی ایسے خاندان تبدیل ہوئے ہیں۔ملاباباآدم ،شاہ ناصررئیس کے دور میں قاضی کے عہدے پرمقررہوئے اورانھیں محمدشفیع کے دورتک کے اسنادملے۔شاہ امان الملک کے دورتک عہدۂ قضاان کے خاندان میں برقراررہا۔اس وجہ سے بعد کے آنے والے حکمرانوں نے ان قدیم سندات پراپنے توثیقی مہریں ثبت کرتے رہے۔ڈھونڈھنے سے اس طرح کی دوسری مثالیں بھی مل سکتی ہیں مثلاََ اعلیٰحضرت شجاع الملک مہترچترال نے خان بہادرمہترژاؤدلارم خان کے نام ریاستی عہدوں اورجائدادوغیرہ کی بابت جوسندجاری کیاہے اس پربہت بعدکے حکمران ہزہائی محمدمظفرالملک کی توثیقی مہراوردستخط موجودہیں۔دومختلف ادوارکے حکمرانوں کے ایک ہی سندپرمہروں اوردستخطوں کی موجودگی سے یہ نتیجہ اخذنہیں کیاجاسکتاکہ مذکورہ سندجعلی ہے یاخدانخواستہ اس میں تحریف کی گئی ہے۔

اگرملاباباآدم کے سندات کے حوالے سے تاریخ چترال میں پیداشدہ ان چندغلط فہمیوں کے ازالے کے بعداگرمذکورہ اسنادمیں درج سنہ اورتاریخوں میں شاہ ناصرالملک اورلیفٹیننٹ غلام مرتضیٰ کے ارادتاََ اورقصداََ ردوبدل کے مفروضے کودرست تسلیم کیاجائے اورنئی تاریخ چترال میں محترم شاہ کٹوراول سے لیکرمحترم شاہ کٹورثانی تک کے دورانئے میں ۱۲۰سے ۱۶۰سال تک اہم فرق کی اصل وجہ تلاش کی جائے توجس مورخ اوران کے لکھی کتاب کوبنیادبناکرولزورتھ ولف گینگ اوردور حاضرکے محققین تنقیدی مقالے تحریرکررہے ہیں وہ بھی حشمت اللہ خان کی تاریخ جموں وکشمیرہے کہ جس پرلیفٹیننٹ غلام مرتضیٰ سے لیکرآج تک کے لکھاریوں کااعتماد ہے۔ اگرحقیقت کی نظرسے دیکھاجائے توان تمام غلطیوں کامنبع اورباعث یہی حشمت اللہ خان کی تصنیف پراندھادھنداعتماداورتقلیدہے۔مثلاَ تاریخ چترال کے بکھرے اوراق کے صفحہ ۱۷پر لکھاہے کہ سرناصرالملک اورغلام مرتضیٰ نے مرزامحمدغفران کی تاریخ کونامکمل تسلیم کرکے حشمت اللہ خان کی کتاب سے استفادہ کیا،تو میرے خیال میں انہوں نے حشمت اللہ خان کی تاریخ جموں وکشمیرکے صفحہ ۶۷۴میں موجود مہتران چترال کے شجرہ نسب سے استفادہ کیاہوگاجوچترال سے متعلق ہے۔ وہاں کچھ یوں درج ہے کہ محترم شاہ کی حکومت ۱۵۸۵ء سے ۱۶۳۴ء تک اوران کے بیٹے شاہ افضل کی تخت نشینی ۱۷۹۰ء سے ۱۷۹۵ء تک ہے یعنی باپ مقتول ہوکر۱۵۶ برس بعدان کابیٹا تخت نشین ہوتاہے اوران ہی محترم شاہ کاچوتھابیٹاشاہ فاضل باپ کے ساتھ کئی جنگوں میں شریک رہے ۔باپ کے قتل ہونے کے ۱۶۴سال بعدیہی بیٹا وفات پاجاتے ہیں۔اس لیے افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ہمارے لکھاریوں اورنقادوں نے غیرجانبداری سے کام لیتے ہوئے تحقیق کاحق اَداکرنے کی بجائے سہواََ یاارادتاََ حشمت اللہ خان کی تصنیف سے بھی صرف انہی نکات کوبنیادبناکرتاریخ چترال پراعتراض اٹھایاہے جوانھیںSuit کرتے ہیں لیکن حکمرانان چترال کے شجرہ نسب اورادوار کے حوالے سے جوسنگین غلطیاں حشمت اللہ خان سے سرزدہوئی ہیں انھیں زیربحث لانے کی زحمت گوارانہیں کی۔ اس اندھی تقلیدکے نتیجے میںیہ گھن حشمت اللہ خان کی تاریخِ جموں وکشمیرسے نئی تاریخ چترال کولگ گئی۔اندھی تقلیدنے مستندقدیم اسنادکوبھی متنازعہ بنادیا، تاریخ کاحلیہ بگاڑدیااورآج کل کے ناقدین اپنے اسلاف کے قابل تحسین کام کی قدروقیمت گھٹا کراپنے پاس موجودگزشتہ تین سوسال پرانے سندات اورمخطوطات کوخودمتنازعہ بناکر،دوسروں کی کی ہوئی غلطیوں کواپنوں کے سرتھوپ کراس بحث کومزیدگنجلک بناتے جارہے ہیں۔

؂ دِل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

محمد عرفان عرفان صاحب کے تبصرے میں چند نکات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے، جو یہ ہیں:

1. عرفان صاحب کے بقول مرزا غفران رئیس حکمرانوں کے نام منظر عام پر لے آئے، لیکن بعد میں کسی نے ان پر نیک نیتی سے تحقیق نہیں کی۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ مرزا غفران ایک نہایت محتاط مورخ تھے۔ انہوں نے اپنی تصنیف میں تحقیق کے تمام اصولوں کو مد نظر رکھا ہے۔ بے شک انہوں نے رئیس حکمرانوں کے کچھ نام لکھے ہیں لیکن یہ صرف نام ہیں۔ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ نام پایہ تحقیق کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چترال پر رئیسوں کی حکومت کچھ زیادہ عرصے نہیں رہی ہوگی۔ وہ یہ شک بھی ظاہر کرتے ہیں کہ شاید یہ سارے نام چترال سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور ان میں سے بعض کا تعلق گلگت سے ہو۔ ان کا یہ شک بلا وجہ نہیں کیونکہ حشمت اللہ خان اور دیگر کتابوں میں یہی نام گلگت کے حکمرانوں کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جہاں تک بعد میں ان پر تحقیق نہ ہونے کا گلہ ہے تو وہ بھی درست نہیں۔ ان پر تحقیق دو طرح سے ہوئی۔ اول مرزا غفران کے فرزند مرزا مرتضیٰ نے ان ناموں کی بنیاد پر ایک پوری تاریخ کھڑی کردی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ٹھیک ٹھیک تاریخیں تک بتادیں۔ انہوں نے چترال کی تاریخ کو لمبا کرنے کی انتہائی کوشش کی جس کا نتیجہ نئی تاریخ چترال کی صورت میں سامنے ہے۔ اگر نئی تاریخ چترال کے لکھنے والے بھی مرزا غفران کی روش پر قائم رہتے تو ہماری تاریخ افسانوں کا مجموعہ نہ بنتی۔

اس سلسلے میں دوسری قسم کی تحقیق ۱۹۹۰ کے بعد ہوئی ہے اور اب بھی ہو رہی ہے۔ محققین مقامی روایات کو قریبی علاقوں کے تاریخی ماخذ کی کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں۔ جس سے کئی راز فاش ہو چکے ہیں اور مزید ہوسکتے ہیں۔ ان کی تحقیق کی بنیاد کاشغر، بدخشان، کابل، قندوز، بخارا اور ہندوستان کی قدیم تاریخی کتب ہیں جو رفتہ رفتہ منظر عام پر آتی جارہی ہیں۔ ان کتابوں میں چترال کی تاریخ کے بارے میں نہایت مفید معلومات مل رہی ہیں۔ رئیس دور کے بارے میں بھی ابہام دور ہوتا جارہا ہے۔ امید ہے مستقبل قریب میں ہماری تاریخ کے بہت سے گوشے واضح ہوکر سامنے آجائیں گے۔ جدید تحقیقات کے نتیجے میں ایک حیران کن بات یہ سامنے آئی ہے کہ مرزا غفران کے تقریباً نظریات اور قیاسات درست ثابت ہوتے جا رہے ہیں اور نئی تاریخ چترال کے بیانیے کی غلطیاں بڑھتی جارہی ہیں۔

2۔ عرفان صاحب کہتے ہیں کہ قدیم سندات سے مرتضیٰ نے استفادے کی بھرپور کوشش کی اور ان سے کچھ نادانستہ غلطیاں ہوئیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ انہوں نے استفادہ ضرور کیا لیکن اس سے پہلے انہوں نے ان کی تاریخیں تبدیل کردیں۔ تاکہ وہ اس کے اپنے کے بیانیے کی تصدیق کر سکیں۔ یہ کام نادانستہ نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا کیا۔ یہ محض الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ مرتضیٰ نے ایک قلمی نسخے کے حاشیے پر اپنے ہاتھ سے ان سندات کے ہجری اور عیسوی سن درج کیے ہیں۔ یہ سن بالکل درست ہیں اور ان میں ذرہ بھر بھی غلطی نہیں۔ بعد میں ان کو کوئی ایسی مجبوری پیش آئی ہوگی کہ انہوں نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ (یہ نسخہ عرفان صاحب کی اپنی لائیبریری میں موجود ہے)۔

3. عرفان صاحب لکھتے ہیں کہ سندات کی تاریخیں تبدیل کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں اور ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ شاہ محمود رئیس کی جس سند کی تاریخ کو تبدیل کرکے سو سال سے زیادہ کا وقفہ پیدا کیا گیا ہے، یہ سند ہماری تاریخ کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس کی مدد سے ایک طرف رئیس دور کے خاتمے کے درست وقت کا تعین ہوتا ہے تو دوسری طرف کئی اور واقعات جیسے قلماق حملوں اور سنگین علی کے سفر ہندوستان کی تحقیق میں مدد ملتی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ سند ہماری تاریخ کے لیے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ تو خیر ہوا کہ یہ سند محفوظ رہی۔ اگر یہ ۱۹۵۰ کے بعد ضائع ہوجاتی تو تاریخ کی گتھیاں سلجھانا ناممکن ہوجاتا۔ (ممتاز حسین)

ٗ

اس سلسلے میں مزید پڑھیے
تاریخ چترال کا ابتدائی دور- کچھ مسائل


MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com