Back

کھوار زبان کی بقا اور ترقی میں شاعری اور موسیقی کا کردار

فرید احمد رضا
16.01.2021

شاعری اور موسیقی کسی بھی زبان کے ارتقا کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ دونوں انسان کی فطرت میں شامل ہیں۔ زبان میں باقاعدہ ادب کی تخلیق سے بہت پہلے لوگ اس زبان میں شاعری کرتے اور گیت گاتے رہتے ہیں۔ کھوار کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جس زمانے میں کھوار زبان میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا ، بلکہ اس کے حروف تہجی تک کا تعین نہیں ہوا تھا، تب بھی اس میں شاعری موجود تھی۔ لوگ شاعری کرتے تھے ، ماؤں نے بچوں کو لوریاں سنائیں، بہنوں نے بھائیوں کے گھر سے دور رہنے پر گیت کہے، دوست نے دوست کی جدائی پر اشعار کہے، عاشق نے معشوق کی بے وفائی پر گیت گائے، کبھی زمانے کی بے ثباتی، کبھی اپنی کم مایئگی اور کبھی حکمرانوں کے مظالم پر شاعری ہوتی رہی اور یہ شعر سینہ بہ سینہ ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتے رہے ۔اس طرح کھوار میں لکھائی کا نظام نہ ہونے اور لکھی ہوئے مواد ناپید ہونے کے باوجود زبان کا ذخیرہ الفاظ،تصورات اور علاقے میں ہونے والے تاریخی واقعات شاعری اور لوگ گائیکی کی شکل میں زندہ رہے.یہ ان زمانہ قدیم کے شاعروں اور موسیقاروں کا احسان ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ ہم تک پہنچایا اور اب یہ کسی حد تک محفوظ ہے۔

کھوار پاکستان بننے سے پہلے کی ریاست چترال اور اب کے صوبہ خیبرپختونخوا کے دو ضلعوں نیز علاقہ غذر میں بولنے والوں کی اکثریتی زبان ہے۔ پاکستان میں علاقہ چترال لسانی طور پر زرخیز علاقہ ہے۔ جس میں کل ملاکر چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں میں کھوار کو ایک منفرد مقام اس لیےبھی حاصل ہے کہ اس زبان میں شاعری بہت پہلے یعنی کہ نامعلوم تاریخ سے شروع ہوئی او ر اس شاعری کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔ اس وقت کھوار شاعری اور موسیقی کا مقابلہ علاقے کی کسی بھی بڑی زبان سے کیا جاسکتاہے۔

تاریخ میں کھوار زبان کو چترال میں بولی جانے والی دوسری زبانوں کے مقابلے میں یہ فوقیت حاصل رہی ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے تک چترال کے حکمرانوں (مہتروں ) کا تعلق بھی لسانی طور پر کھو کمیونٹی سے رہاہے۔ اگرچہ اُس وقت بھی سرکاری یا دفتری زبان فارسی تھی لیکن بولنے کی حد تک یہ سرکاری زبان تھی کیونکہ یہ مہتران وقت (حکمران ریاست ) ماں بولی تھی ۔

مہتراں چترال اپنے مہرکوں میں ،گھر وں میں اور اپنے دفتروں میں یہ زبان بولتے تھے۔ساتھ ساتھ یہ لوگ علم ادب کے قدردان اور اپنی ماں بولی سے پیارکرنے والے تھے۔ اس لیے ان کے مہرکوں میں شاعروں اور ادیبوں کو پذیرائی حاصل تھی۔ رات کو کھانے کے بعد مہتر کے مصاحبین مہتر کے ساتھ بیٹھتے تھے ۔ جس میں ملکی امور کے علاوہ شاعری، موسیقی کا دور چلتا اور قصہ کہانیاں سنائے جاتیں ۔

حکمرانوںکی زبان ہونے کی وجہ سے علاقے کی دوسری زبانوں کے اوپر کھوار کو فوقیت حاصل رہی ۔یہی وجہ ہے کہ کھو لوگ اپنی زبان اور ثفاقت پر فخر کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ یہ احساس برتری اور مہتران چترال کی سرپرستی ،غیر ارادی طور پر اس زبان کو معدوم ہونے سے بچانے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں غیر محسوس طریقے سے اپنا کردار اداکرتی رہی۔

چترال کے لوگ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود بھی شعروشاعری کے فن سے اشنا تھے ۔ موسیقی او رشاعری کے دلدادہ تھے اور ہیں۔ شاعری اور موسیقی کے پروگراموں میں شو ق سے حصہ لیتے ہیں۔ پڑھےلکھے نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت کے شاعر فی البدیہہ شعرکہتے ۔ راہ چلتے شاعر ایک دوسرے سے ملتے ایک دوسرے کو شعر سناتے ، ایک دوسرے کے شاعری کے اوپر طنز بھی کرتے۔معیار ایسا تھا کہ کھوار کے پرانے شاعری کے بول اور تمثیل سن کر بندہ حیران رہ جاتاہے۔ اس طرح شاعری اور موسیقی کے پروگرام چلتے رہتے، اس طریقےسے ایک شاعر کی تخلیق زبانی طور پر ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتا ۔

جب ہم قدیم کھوار شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ اُس وقت کے کھو شاعروں نے اپنی شاعری کو عشق و عاشقی تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ وہ اپنی شاعری کو پیغام رسانی،لوگوں کو آگاہی دینے، ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے، معاشرے میں بداخلاقی کو ختم کرنے اور اخلاق کو پروان چڑھانے کےلیےایک اہم ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ حاکم وقت کو کوئی شکایت پہنچاناہو،ظلم زیادتی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہوں ،تاریخی واقعات کو لوگوں تک پہنچانا،جنگوں میں بہادری دیکھانے پر کسی کو شاباش دیناہوں یاکسی کی حالت زندگی کے روشن پہلو کو اجاگر کرنا ، ان سب کےلیے کھو شاعروں نے شاعری کو ایک موثر ذرائع کے طور پر استعمال کیا ہے۔

یوں تو ہر زبان کی شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، لیکن کھوار شاعری کا موسیقی سے خصوصی تعلق رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعروں کو نشر و اشاعت کے دیگر ذرائع میسر نہیں تھے۔ بہت سے شاعر اپنا کلام خود گاتے تھے یا اس مقصد کے لیے دوسروں کی مدد حاصل کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے شاعری اور موسیقی کا تعلق سننے سے ہے۔ اس لیے معاشرے کا ہر ایک فرد شاعری یا موسیقی سن کر اسے محظوظ ہوتاہے ۔ یہیں سننے کا عمل ایک واقعہ کو یاد رکھنے اور محفوظ طریقے سے اگے پہنچانے کا ذریعہ بنتاہے۔

اس طرح سوز اور ساز کو آپس میں ہم اہنگ کرکے جب معاشرے کے سامنے پیش کیاجاتا ہے تو اس کی اہمیت کچھ خاص بن جاتی ہے۔ جس شعر کو موسیقی یا ترنم کے ساتھ پیش کیاجاتاہے تو اس کو ہر خاص عام بہت شوق سے سنتے ہیں اور وہ یاد بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم کےچترال میں رونما ہونے والے واقعات کھوار لوگ کھیتوں کی صورت میں ہمارے معاشرے میں زندہ ہیں۔ زمانہ معلوم کے عوامی شاعروں مرزامحمد سیر،زیارت خان ، شیرملک ،گل اعظم خان گل کی شاعری پورے کھو علاقے میں زبان زد عام ہیں۔ ساتھ ساتھ کھوارلوگ کھیت نانو بیگال،نان دوشی، ڈوک یخدیز،اشوب جان جیسے واقعات اگر کسی کہانی کی کتاب میں لکھے ہوتے تو اس جدید دور کے آنے تک یہ واقعات کھو کمیونٹی سے معدوم ہوچکے ہوتے۔ لیکن یہ سارے واقعات سوز اور آہنگ کےساتھ ہونے کی وجہ سےمعاشرے میں زندہ بھی ہیں اور لوگوں کو یاد بھی۔ پرانے زمانے کی عوامی شاعری اور لوک گیتوں کی صورت میں سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو منتقل ہونے کے اس عمل کو کھوار زبان کی بنیاد بھی کہہ سکتے ہیں اور ترقی کا عمل بھی۔

farid raza

Farid Ahmad Raza, President Mother-tongue Institute for Education and research (MIER) is a linguist and researcher, working on language promotion, documentation and multilingual education in Chitral
.He is Editor in-chief of a journal "Khowar Nama" for Khowar language
Email: farid.mier@gmail.com

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com