Back To Main Page

چترال کے ریاستی دورکاعدالتی نظام

شہزادہ تنویرالملک ایڈوکیٹ

قدیم چترالی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی شرعی قوانین کانفاذعمل میں آچکا تھا۔ شاہ ناصر رئیس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بدخشان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم ملا دانشمند رستاقی کوچترال کاقاضی مقررکیا۔ ملادانشمند کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمدرفیق کوچترال کاقاضی مقررکیاگیا۔ اسی زمانے میں شاہ ناصر رئیس نے علاقہ نرست، جواس وقت ریاست چترال کاحصہ تھااوراب افغانستان کے صوبہ کنڑکاایک ضلع ہے، کے لیے ملاباباآدم کوقاضی مقررکیا۔ رئیس خاندان کا خاتمہ محترم شاہ کٹوراول کے ہاتھوں ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد شاہ محمود رئیس نے جب دوبارہ اقتدارحاصل کیا اتوانہوں نے چترال کے ہرعلاقے میں قاضی مقررکیے، جن کے اسناد تقرری دستیاب ہیں۔ تاہم جلد ہی شاہ کٹور کے بیٹے شاہ سنگین علی ثانی نے رئیس حکمران کوشکست دے کرچترال پرخاندانِ کٹور کااقتداربحال کیا۔ ان کے دور میں رئیس دورکاعدالتی نظام برقرار رہا۔ کٹورحکمرانوں میں مہترمحمدشفیع چترال کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے چترال کے ہرعلاقے کے لیے قاضی مقررکیے اورملاباباآدم کوچترال کاقاضی مقررکیا۔ تاریخ چترال سے پتہ چلتا ہے کہ ملاباباآدم نرست کنڑسے موژگول تک کے علاقے کاقاضی تھا، جوبعد میں ریاستِ چترال کے قاضی القضات کے عہدے پربھی فائزرہے۔ محترم شاہ کٹورثانی ( متوفی ۱۸۳۷) کے دورمیں بھی چترال اوراس کے اطراف واکناف میں ریاست کی طرف سے کئی قاضی مقررتھے جن میں قاضی شہاب الدین ،قاضی شرف الدین ،قاضی توکل اورقاضی محمدنظام کاتذکرہ تاریخ کی کتابوں ملتاہے۔ قاضی محمد نظام موضع ایون اور اس کے قریہ جات کے قاضی تھے۔

شاہ امان الملک (۱۸۵۶ء تا۱۸۹۲ء) کے دورمیں بھی ریاست چترال کی حدودمیں شرعی قوانین نافذالعمل تھے۔ہرعلاقے میں قاضی مقررتھے۔ اس زمانے میں خواجہ احرارچترال کے قاضی القضات کے عہدے پرمامور تھے جوبڑے عالم وفاضل شخص گذرے ہیں۔۱۸۹۲ء میں شاہ امان الملک کی وفات تک ریاست چترال میں عدلیہ انتظامی شعبوں کی تقسیم زیادہ واضح نہیں تھی۔ جائدادسے متعلق مقدمات کافیصلہ مہترخود کیا کرتے تھے۔ ان کے اکثرفیصلے زبانی ہواکرتے تھے۔ تاہم ان کے آخری دور میں مرزا محمد غفران کی آمد کے بعد فیصلوں کو کسی حد تک تحریری شکل دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بحیثیت حکمران وہ ریاستِ چترال کے تمام زمینات کے مالک تھے اس لیے جائداد سے متعلق تنازعات کافیصلہ بھی وہ اپنے خصوصی اختیاراورمرضی کے تحت خود کیاکرتے تھے۔البتہ قتل ،میراث اوردیگرفوجداری نوعیت کے مقدمات کی سماعت علماء ؍قاضیوں کی ایک جیوری شاہی عدالت میں کرتی تھی، جبکہ دیوانی نوعیت کے تنازعات کافیصلہ مہترخود’’محرکہ‘‘ میں اپنے وزیروں ،مشیروں اوردیگرسربرآوردہ افراد کے ساتھ صلاح مشورے سے کیاکرتے تھے۔اس طرح کے فوجداری اوردیوانی تنازعات کے تصفیے کے سلسلے میں جواِدارے مصروف کارتھے ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔

محرکہ

محرکہ ریاستی دور میں روزانہ کی ایک ایسی شاہی نشست ہواکرتی تھی جس میں مہترکے علاوہ ریاست کے وزراء،مشیراوردیگرعلاقائی عمال شریک ہوکرریاستی امورپرتبادلہ خیال کرتے اور مختلف افراداپنے مسائل بیان کرتے۔ایسے موقعے پرمہترکاسیکرٹری بھی ان کے نزدیک موجودہوتا۔ ڈیوٹی پرماموراہلکار سائلوں کوایک ایک کرکے مہترکے سامنے پیش کرتا۔عرضی پیش ہونے کے بعد موقعے پرموجود معتبرات اورریاستی عہدیداراس مقدمے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے۔ اگراس موقعے پرمسؤل الیہ حاضرہوتا تواس سے بھی جواب اوروضاحت طلب کی جاتی۔ مہترہرایک کا مؤقف اوررائے سننے کے بعد اپنا فیصلہ صادرکرتا، جوسائل کی درخواست کے اوپرلکھ دیاجاتا۔ مہترکے فیصلے کے خلاف مزید اپیل یا نظرثانی کی درخواست گذارنے کی گنجائش نہیں تھی۔

اعلٰحضرت شجاع الملک (۱۸۹۵ء تا۱۹۳۶ء) چترال کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے ریاستی امورکوجدید خطوط پراستوارکرنے کی غرض سے دوررس اقدامات اٹھائے۔ان سے پہلے چترال میں قبائلی بادشاہت ہواکرتی تھی۔ تخت کے جس دعویدارکے ساتھ زیادہ لوگ ہوتے وہ طاقت کے بل بوتے پراقتدارپرقابض ہوجاتا۔ لیکن شجاع الملک نے اقتدارمیں آنے کے بعد بعض ایسے بنیادی اقدامات اٹھائے کہ جن سے مہترکے عہدے کوقانونی تحفظ ملا۔ انہوں نےاپنے دورمیں باقاعدہ ریاستی فوج شاہی باڈی گارڈ کے نام سے تشکیل دی، پولیس کامحکمہ قائم کیا، محکمہ مالیہ ان کے دورمیں قائم کیاگیا۔ اسی طرح کی دیگر کئی اصلاحات کے ساتھ ساتھ انہوں نے میزانِ شریعت اورعدلیہ کونسل کے نام سے دو عدالتی ادارے قائم کیے۔ انہی اصلاحات کی بناء پر انہیں جدید ریاست چترال کا بانی کہا جاتا ہے۔

ریاستِ چترال کی انتظامی مشینری ایک منظم طریقہ کارکے تحت گھومتی تھی جس کا مرکز مہتر ہواکرتاتھاجبکہ چترال کااشرافیہ طبقہ ریاستی امورکی انجام دہی میں مہترکے معاون ومددگارہوتے تھے۔ بہ نسبت دیگرہمسایہ ریاستوں اوراردگردکے علاقوں کے جہاں پرقبائلی روایات اوررسوم ورواج کوبنیادی حیثیت حاصل تھی، چترال میں قانون کی عمل داری صدیوں سے قائم رہی ہے۔ چترال کے باشندے قدیم الایام سے منظم اورمقامی قوانین کی پابندی کرتے آئے ہیں۔ بلاشبہ ہرمعاشرے میں انفرادی اوراجتماعی تنازعات بھی جنم لیتے رہے ہیں چترال بھی اس قسم کے واقعات سے مستثنیٰ نہیں۔ اس طرح کے حالات پیداہونے کی صورت میں، تنازعات رواجی اوراسلامی قوانین کے تحت نمٹائے جاتے تھے۔ مہتراس قسم کے تنازعات نمٹانے میں مکمل طورپربااختیارہواکرتاتھا۔ تاہم احکامات صادر کر تے ہوئے وہ عام طور پرشرعی قوانین اور مقامی روایات کومدنظررکھتاتھا۔ خصوصاََ ایسے مقدمات جس میں اراضیات کامعاملہ زیرنزاع ہوتا، کے تصفیے کے لیے رواجی قانون پر زیادہ انحصار کیا جاتا۔ ریاستی دارالحکومت سے باہردوردرازعلاقوں میں مہترکی جانب سے مقامی سطح کاعدالتی ار انتظامی ڈھاچہ قائم تھا۔ جن میں ہرگاؤں اورقصبے کے قاضی شامل ہواکرتے تھے جوان فوجداری مقدمات کی سماعت کرتے جومہترکے حکم پرانھیں بھیجے جاتے ۔قاضیوں کویہ اختیارحاصل تھاکہ وہ اپنے دائرہ اختیارمیں موجوددیہات کی عشربطورمشاہرہ وصول کریں۔

عدلیہ کونسل

۱۹۰۹ء میں اعلیٰحضرت شجاع الملک نے ریاست چترال کے عدالتی نظام کوجدیدخطوط پراستوارکرنے کی غرض سے اعلیٰ عدلیہ کونسل قائم کیا۔ روایت مشہور ہے کہ اس کونسل کے قیام کی تجویزشجاع الملک کی والدہ ماجدہ اَسماری خونزہ( جوخانِ اَسمار کی صاحبزادی تھی) نے دی تھی۔اس کونسل کودیوانی اورفوجداری نوعیت کے مقدمات کی سماعت کااختیارحاصل تھا۔ شجاع الملک کے عہدمیں اس کونسل کے لیے ۷۲ ارکان نامزدکیے گیے تھے، جوچترال کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے معززین اوراکابرین تھے۔ یہ اراکین چترال کے دستور ورواج سے باخبرجہاندیدہ قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ ابتدامیں ان اراکین میں سے پانچ ارکان چھ ماہ دارالحکومت میں مقیم رہ کرعدالتی فرائض انجام دیتے تھے۔ بعدمیں ان کی تعداد بڑھا کردس کردی گئی۔ چترال میں قیام کے دوران مہترکی جانب سے انھیں تنخواہ کے علاوہ مفت رہائش اور کھانے پینے کی سہولت حاصل ہوتی۔ تاریخ چترال کے مصنف مرزامحمدغفران اس کونسل کے پہلے سیکرٹری تھے۔ اس کونسل کے قیام کے کچھ عرصے بعد صدرکونسل کاعہدہ متعارف کیا گیا اور دنین کے میتارژاؤاسفندیارخان اس کونسل کے پہلے صدرمقررہوئے۔ مختلف اوقات میں ہزہائی نس محمدناصرالملک، ہزہائی نس محمدمظفرالملک، شہزادہ محمدحسام الملک اورشہزادہ غازی الدین کونسل کے صدر رہے۔ ہزہائی نس محمدناصرالملک کے عہد اقتدارمیں کچھ عرصہ کوغوزی کے میتارژاؤآفراسیاب خان اس عدالت کے صدررہے تھے۔

عدلیہ کونسل کے فیصلہ جات رواجی قوانین اورمہترکے انتظامی احکامات کی روشنی میں صادرکیے جاتے۔ وہ مقدمات جن میں شرعی قوانین کے تحت فیصلہ کرنا مقصودہوتا، میزانِ شریعت کوبھیجے جاتے۔ کونسل میں ایک وقت ڈیوٹی پرموجو دس اراکین میں سے ایک کاعالم دین ہونا لازمی تھا، جوشرعی امورسے متعلق معاملات میں کونسل کی رہنمائی کرتا۔ اس طرح کونسل کے فیصلوں میں رواجی قانوں کے ساتھ ساتھ شرعی قوانین کوبھی ملحوظ خاطررکھاجاتا۔ عدلیہ کونسل کی ذیلی کمیٹیان بھی کونسل کہلاتی تھیں، جوریاست کے علاقائی گورنروں کے علاقوں میں قائم تھیں۔ یہ کمیٹیاں مقامی سطح کے ان تنازعات کے بارے میں تحقیقات کرتیں جومہترکی عدالت سے انھیں بھیجے جاتے۔ یہ ذیلی کمیٹیاں علاقے کے تجربہ کاراکابرین پرمشتمل ہوتیں۔ جنھیں ریاست کے علاقائی گورنروں ، انتظامیہ، مقامی قاضیوں اورمفتیوں کی مدد وتعاون حاصل ہوتا۔ شجاع الملک کی اقتدارکے آخری برسوں میں دیہی کمیٹیوں کی صورت میں ایک تیسراعنصربھی عدالتی نظام میں داخل کیاگیاتھا۔ ان کمیٹیوں کومعمولی نوعیت کے تنازعات کونمٹانے کااختیاردیا گیا تھا۔ معترضہ فریق کوان علاقائی کونسلوں اورذیلی کمیٹیوں کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کونسل یا پھربراہ راست مہترکے سامنے اپیل کاحق حاصل تھا۔

ریاست کے اندرکسی بھی باشندے کوعدالتی چارہ جوئی کے سلسلے میں اس مروجہ طریقہ کارسے انحراف اورروگردانی کی اجازت نہیں تھی کہ وہ علاقائی یا ذیلی کونسلوں کونظراندازکرکے براہ راست اعلیٰ عدلیہ کونسل یا پھرمہترکی عدالت سے رجوع کرے۔

میزانِ شریعت

رئیس حکمرانوں کے دورسے چترال میں رواجی قوانین کے ساتھ ساتھ شرعی قوانین پر بھی عمل درآمد ہوتارہا تھا۔ ا س دورمیں اسلامی قوانین مقامی قاضیوں کے ذریعے روبہ عمل لائے جاتے تھے، لیکن ریاست کی مرکزی سطح پرایساکوئی مربوط عدالتی نظام یا اپیلیٹ کورٹ نہیں تھ اکہ جہاں علاقائی قاضیوں کے فیصلہ جات کے خلاف اپیل یا نظرثانی کی درخواست دائرکی جاسکے۔ ان جملہ عدالتی کاروائیوں کا کوئی ریکارڈبھی نہیں رکھا جاتا تھا۔ شجاع الملک نے اپنے دورمیں عدالتی اصلاحات کاجوسلسلہ شروع کیا تھا،ان کے تحت ۱۹۰۹ء میں انہوں نے ریاست کے مرکزی سطح پرایک شرعی عدالت تشکیل دی جسے ’’میزانِ شریعت ‘‘ کانام دیاگیا۔ اس عدالت کامرکزی دفترشاہی جامع مسجدمیں قائم کیاگیا۔ یہ عدالت ریاست چترال کے مملکتِ پاکستان میں انضمام کے کافی عرصہ بعد تک غیرفعال حالت میں موجود رہی۔ اس شرعی عدالت کوکاروباری لین دین، میراث، نکاح وطلاق اورفوجداری مقدمات مثلاََ قتل جیسے جرائم کے مقدمات کی سماعت کااختیارحاصل تھا۔ میزانِ شریعت کاسربراہ ’’قاضی القضاۃ ‘‘کہلاتاتھا۔جس کی نگرانی، جس کے ساتھ چارسے چھ عالم دین بحیثیت قاضی ہوتے، جو مقدمات کی سماعت کرتے۔ان تمام قاضیوں کومہترخود مقررکرتا۔ قاضی القضات اوردیگرقاضیوں کواپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں چترال خاص میں قیام کے دوران ریاست کی طرف سے مشاہرہ کے علاوہ رہائش اورخوراک کی سہولت حاصلا ہوتی۔ میزانِ شریعت کو زیرتجویزمقدمات کی ابتدائی سماعت کے علاوہ علاقہ قاضیوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سننے کا اختیار بھی حاصل تھا۔ دونوں قسم کے مقدمات میں اس کا فیصلہ مہترکی منظوری کے لیے بھیجا جاتا۔ مہترزیرتجویزمقدمے پرفیصلہ صادرکرنے سے پہلے قاضی القضات سے مقدمے کی نسبت رائے طلب کرتا۔ مہترکے فیصلے اوردستخط کے بعدمقدمے کی فائل عدلیہ کونسل بھیج دی جاتی جہاں اسے عدالتی ریکارڈ روم میں محفوظ کردیاجاتا۔ وہ مقدمات جن میں میزان کے فیصلے سے مہترکااختلاف ہوتا، دوبارہ غوروخوص کے لیے میزانِ شریعت واپس بھیج دیے جاتے۔ شجاع الملک کے ابتدائی دورمیں قاضی احرارہی چترال کے قاضی القضات تھے۔ ان کی وفات کے بعدقاضی عبدالرحمن چترال کے قاضی القضات مقررکیے گیے۔ ۱۹۳۰ء میں قاضی عبدالرحمن کی وفات کے بعداخونزادہ محمدفاضل چترال کے قاضی القضات مقررہوئے۔

عدالتی کاروائی کی دستاویزسازی

۱۸۹۲ء میں شاہ امان الملک کی وفات تک چترال میں عدالتی کاروائی کوتحریری صورت میں محفوظ کرنے کاکوئی دستورنہیں تھا۔ شجاع الملک نے ۱۸۹۵ء میں اقتدارمیں آنے کے بعداس طریقہ کارپرنظرثانی کی۔ ۱۹۰۹ء میں قائم شدہ عدلیہ کونسل کواختیاردیا گیا تھا کہ وہ سائلان سے تحریری درخواست طلب کرے، جسے سرکاری ریکارڈ میں شامل کیا جاتا۔ ۱۹۱۵ء میں عدالتی اصلاحات کے دوسرے مرحلے میں ریاستی اسٹیمپ پیپرمتعارف کیا گیا جس کی مالیت ایک روپے ہوتی تھی۔ سائل اس اسٹیمپ پیپرپراپنی عرضی لکھ کرعدالت میں پیش کرتا۔ اس انتظام کے بعدسادہ کاغذ پرلکھی درخواست وصول کرنے کاسلسلہ بند کردیا گیا۔ اس طریقے سے ریاست کے عدالتی نظام کومنظم اورجدیدخطوط پراستوارکیاگیا۔

رواجی قانون

چترال قدیم زمانے سے ہی بیرونی حملہ آوروں کے حملوں کی زد میں رہاہے، جن میں چینی ، گندھارااور ایرانی اور دیگر حملہ آورشامل ہیں۔ ان بیرونی حملوں نے نہ صرف چترال کی تہذیب وثقافت کو بلکہ مقامی رواجی قوانین اوراس علاقے کے انتظامی طریقہ کارکوبھی متاثرکیا۔ چترال میں رائج بعض رواجی اوردستوری قوانین ان ابتدائی فاتحین کے نافذکردہ ہیں۔ مثلاً قدرتی وسائل کی تقسیم کاطریقہ کار، جسے بعدمیں مقامی باشندوں نے بھی اپنائے رکھا، اورجونسل درنسل اس خطے میں رائج رہا۔ اگرچہ ریاستی دورمیں رواجی قوانین کا کوئی تحریری ضابطہ مرتب نہیں کیا گیا تھا لیکن ضابطہ کارکاایک ڈھاچہ بہرحال موجودتھا جوروزمرہ زندگی کے ہر قسم کے مسائل نمٹانے کے لیے کافی تھا۔ رواجی قوانین کا یہ مجموعہ رئیس اورکٹورحکمرانوں کے ایجاد کردہ عدالتی نظام کے لیے صدیوں تک بنیاد کا کام دیتا رہا۔

چترال کے باشندے قدیم الایام سے عمومی طورپرامن پسنداورقانون کی پاسداری کرنے والے مشہور ہیں۔ حریف قبائل بھی خودکومہترکی نظروں میں ممتازبنانے کے لیے ملکی قانون کی پاسداری کواہم ذریعہ تصورکرتے ہوئے قانون کااحترام کرتے تھے۔ لیکن جہاں بھی کوئی قبیلہ سرکشی اورنافرمانی پراترآتا، اس سے سختی سے نمٹاجاتا۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت، نیز مہترکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کے علاوہ ریاست کی سخت نگرانی کی وجہ سے بھی چترال میں قانون کی خلاف ورزی شاذونادرہواکرتی تھی۔

اجتماعی ذمہ داری کاتصور

رواجی قانون کی ایک منفردخصوصیت اجتماعی ذمہ داری کا تصورتھا۔اگرکوئی شخص جرم کرکے کسی گاؤں یاقصبے میں چھپ جاتا، اورہاتھ نہ آتا، یا اس کا پتہ نہ چلتا تواسے پکڑکرحوالہ کرنے کی ذمہ داری پورے گاؤں پرعائد کی جاتی۔ اگرگاؤں والے مجرم کوپکڑکرحوالہ کرنے میں ناکام رہتے توپورے گاؤں پر ریاست کی طرف سے جرمانہ عائد کیاجاتا جو گاؤں کے تمام باشندوں سے وصول کی جاتی۔ چونکہ اس زمانے میں مجرموں کی تلاش اورپکڑکے لیے کوئی ریاستی اِدارہ موجود نہیں تھا اس لیے ۱۹۵۳ء میں محکمہ پولیس کے قیام تک چترال میں اجتماعی ذمہ داری کا یہ طریقہ کارروبہ عمل رہا۔ اس سے پہلے نہ صرف کسی گاؤں میں رونما ہونے والے جرائم کے سلسلے میں اس گاؤں کے باشندے جوابدہ ہوتے تھے بلکہ مجرم کوگرفتارکرکے پیش کرنے کے بھی ذمہ دارتھے۔ اس قسم کی کاروائیوں میں تعاون پر ریاست کی طرف سے دیہات کے باشندوں کوانعام واکرام سے نوازا جاتا۔ دیہات کے بعض افرادرضاکارانہ طور پر بھی ریاست کے لیے اس طرح کی خدمات انجام دیتے۔ شجاع الملک کے عہدکے آخری برسوں میں خفیہ پولیس کاالگ محکمہ قائم کیا گیا تھا جس کی طرف سے ہرگاؤں میں محررمقررتھے جو اپنے دائرہ کار میں وقوع پذیر ہونے والے ہرواقعے سے ریاستی حکام کوآگاہ رکھتے۔ اس نئے انتظام کی وجہ سے ریاست کے اندر جرائم کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ معاشرتی ذمہ داریوں کی انجام دہی مثلاً مردے دفنانے، پلوں اورراستوں کی تعمیرومرمت اوراجتماعی بہبود کے دیگرکاموں میں گاؤں کے تمام باشندے حصہ لینے کے پابند تھے، البتہ بیوہ اور یتیم بچے اس قسم کی ذمہ داریوں کی بجاآوری سے مستثنیٰ قراردیے گیے تھے۔

ریاستی دورکی سزائیں

چونکہ اس زمانے میں چترال کی آبادی نہایت محدودتھی، اس وجہ سے جرائم کی شرح نہایت کم تھی اورآج کل کی طرح جرائم کی بھرمارنہیں تھی، اس لیے یہاں پر چندایک قسم کے جرائم معروف تھیں اورجوکوئی ان جرائم میں سے کسی جرم کامرتکب ہوتااسے سزادی جاتی۔ ان جرائم میں بغاوت یاغداری سرفہرست تھی۔

۱۔ بغاوت یاغداری

ریاستی قانون کے تحت بغاوت یاغداری کی سزا موت مقررتھی۔ لیکن بعض اوقات باغی یاغدارکی جان بخشی توکی جاتی لیکن اس کی جائداد بحق ریاست ضبط کرکے تمام عمرکے لیے ملک بدرکردیاجاتا۔ جیساکہ ۱۹۱۷ء میں شجاع الملک کے خلاف بغاوت کے الزام میں موضع چوئنج مستوچ کے سید بلبل شاہ کی جائدادضبط کرکے انھیں مع اہل وعیال بدخشان کی طرف ملک بدرکردیاگیا۔ بعض اوقات اس قسم کی ملک بدری عارضی بھی ہوتی اورکچھ عرصہ گذرنے پرمہترکی طرف سے معافی ملنے پرواپس بلائے جاتے جیساکہ ۱۹۲۵ء کی سازش کے سلسلے میں حاکم مصنف خان رضاخیل کے سلسلے ہواجب ایبٹ آبادجیل میں مذکورہ جرم کے سلسلے میں پانچ برس قید با مشقت کاٹ کرچترال واپس پہنچنے پر معہ اہل وعیال بدخشان کی طرف ملک بدرکردی اگیا۔ لیکن انہوں نے بدخشان ملک بدرہونے کی بجائے علاقہ لٹکوہ کے موضع ارکاری کے سرحدی علاقے میں کھوُ رو بخ کے مقام پرایک غارمیں کئی برس کی نظربندی کو ترجیح دی۔ دوبرس بعد ہزہائی نس شجاع الملک کی طرف سے معافی ملنے پراپنی جاگیرپربحال کردیے گیے۔

بعض اوقات حکمرانِ وقت کی نظروں میں معتوب اورغدار قرارپاکرملک بدرہونے کے برسوں بعدحکمران تبدیل ہونے کی صورت میں بعض مجرم نئے حکمران سے معافی پاکراپنی موروثی جائدادوں پربحال بھی ہوتے رہے ہیں۔ جیساکہ ۱۹۲۵ء میں شجاع الملک کے خلاف سازش کے الزام میں ملک بدر ہو نے والے کیسوکے مہترژاؤ میرحیدر علی خان ہزہائی نس محمد ناصرالملک کے عہد میں معافی ملنے پر کابل افغانستان سے واپس آگیے تاہم اس طرح کی مثالیں بہت کم ہیں۔

۲۔ قتل

اگرکوئی شخص ناجائزتعلقات کے الزام میں اپنی بیوی اوراس کے ساتھ ملوث آدمی کوقتل کردیتا توریاستی قانون کے تحت اسے سزاسے مستثنیٰ تصورکیاجاتا۔ لیکن قتل کے دوسرے مقدمات میں اگرمقتول کے ورثاء خون بہا یا دیت پرراضی نہ ہوتے تومجرم کورواجی قانون اورشریعت کے مطابق سزائے موت دی جاتی۔ مقتول کے ورثاء کی طرف سے قصاص کے مطالبے پرقاتل کوگولی ماردی جاتی یا پھرتلوارسے مجرم کاسرقلم کردیا جاتا۔ سزا پرعمل درآمدعموما مقتول کے ورثاء کے ہاتھوں کروایا جاتا، تاہم بعض اوقات خودریاستی کارندے بھی عدالتی فیصلوں پرعمل درآمدکرتے ہوئے قاتل کی گردن اُ ڑادیتے یا پھرگولی مارکرقاتل کاقصہ تمام کردیتے۔ اس طرح عدالتی فیصلے پر پرفوری عمل درآمد کرکے قاتل کواس کے انجام تک پہنچایاجاتا اوراس کی جائداد ضبط کی جاتی۔ اگرکوئی قاتل جرم کے ارتکاب کے بعد فرارہوجاتا توخون بہا کی رقم اس گاؤں کے تمام باشندوں سے وصول کی جاتی۔ اس طریقہ کارکی وجہ سے گاؤں کے باشندے قاتل کوفرارہونے نہ دیتے، اوراسے ہرقیمت پرپکڑکرریاست کے حوالے کرنے کی کوشش کرتے۔

۳۔ چوری

چترال میں چوری کے واقعات شاذ ونادر پیش آتے تھے۔ پھربھی اگرکوئی چوری کا مرتکب ہوتا توجرم ثابت ہونے پراسلامی قانون کے مطابق اس کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے رواجی قانون کے تحت مجرم سے مالِ مسروقہ واپس لیاجاتا یا پھراسے اس چیزکی دُ وہری قیمت اَدا کرنی پڑتی۔ اس کے علاوہ مجرم کوجرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا۔

سزائے قید

چونکہ اس زمانے میں ریاست میں باقاعدہ قید خانے نہیں تھے۔ اس لیے سزائے قید پانے والے مجرموں کوان کی سزاکی مدت پوری ہونے تک چترال کے طول وعرض میں موجود مختلف قلعوں کے تہہ خانوں میں قید رکھا جاتا۔ غرض چترال کے ریاستی دورکاعدالتی نظام اس دورکے مخصوص حالات کے مطابق ایک مکمل اورکارآمد نظام تھا، جوکئی صدیوں کے تجربات کا نچوڑتھا۔ اس کے تحت مظلوم کوفوری انصاف ملتا اورمجرم اپنے جرم کی سزا پاکرکیفرکردارکو پہنچ جاتاتھا۔ رواجی قانون کے نفاذ اورعمل درآمد میں ریاست کی تمام رعایا کا اہم اوربنیادی کردارتھا۔ کیونکہ ان کے دلوں میں یہاں کے رواجی اوراسلامی قوانین کا احترام تھا اوران قوانین کے نفاذ میں وہ ریاست کے مددگار تھے۔ اس وجہ سے چترال میں جرائم کی شرح نہایت کم ہوا کرتی تھی۔

Tanvirul Mulk Chitral

The writer

Shahzada Tanvirul Mulk is a Chitral based lawyer and writer. He the sitting president of
Anjuman Taraqi e Khowar, a literary organisation.
28-12-2014

MAHRAKA.COM
A Website on the Culture, History and Languages of Chitral.
Contact: mahraka.mail@gmail.com